حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی تمنائے شہادت
غزوۂ بدر کے موقع پر ایک کم سن نوجوان مجاہدینِ اسلام کی صفوں میں چھپتا پھر رہا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف بندی کے دوران اس نوجوان کو دیکھ کر فرمایا : بیٹا! ابھی تمہاری عمر لڑنے کی نہیں ہے،
اس لئے تم واپس چلے جاؤ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم سن کر وہ نوجوان جو کم عمری کے باوجود دل میں شہادت کی شدید آرزو رکھتا تھا آبدیدہ ہوگیا،
اور عرض پرداز ہوا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت کا طلب گار ہوں،
شاید میرا لہو اللہ کی راہ میں کام آجائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کا جذبۂ ایمان دیکھ کر اُسے اجازت مرحمت فرما دی اور اسے تلوار بھی عطا کی۔
تاریخ اس نوجوان کو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔
جنگ کا آغاز ہوا تو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دشمن پر ٹوٹ پڑے، آخر دادِ شجاعت دیتے ہوئے فقط سولہ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور اپنا نام اسیرانِ مصطفیٰ کی فہرست میں لکھوانے کی سعادت حاصل کی۔
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 2149
حاکم، المستدرک، 3 : 208، رقم : 34864