السلام علیکم
“ جب محبت تمہیں اشارہ کرے اس کے پچھے
جاؤ“
‘ باوجود اس کے کہ اس کے راستے مشکل اور دشوارگزار ہیں“
‘اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں لپیٹ لے تو برضا لپٹ جاؤ“
“ اور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کرو“
“خواہ اس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کو منتشر کردے ۔ ۔ ۔ جس طرح نسیم شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے“
یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہےتو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے-
جس طرح وہ تمہاری روح کے سبزہ زار کو شاداب رکھتی ہے اس طرح وقتا ً فوقتا ً اس سبزہ زار کی بہت سی بے کار اور خودرو گھاسکو تراشتی اور چھانٹتی بھی رہتی ہے-
“ محبت تم کو کچھ نہیں دیتی سوائے اپنے !“
“ اور محبت تم سے کچھ نہیں لیتی سوائے اپنے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے اس جوہر لطیف کے جو اسی کا ہے“
“ محبت قبضہ نہیں کرتی ، نہ اس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے“ اورجب تم محبت کرو تو اس سے یہ نہ کہنا کہ
“وہ میرے دل میں ہے“
بلکہ کہو تو یہ کہ کہ
“میں اس کے دل میں ہوں“
“اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ تم محبت کو راستہ بتا سکتے ہو“
وہ تم کو راستہ بتاتی ہے، بشرطیکہ تم کو اس قابل پائے“
پھر اگر تم محبت کرو، اور خوائشیں اور تمنائیں بھی رکھو تو گھل کر پانی ہوجاؤ۔ ۔ ۔ ۔ بہتے چشمے کی طرح “جو شب کی ظلمت کو اپنا نغمہ سنا تا ہے“
پھر اس درد کو پہچانو جو اس چشمے کے اندر سے ذوق پیدا کرتا ہے“
“اور محبت کے متعلق جو کچھ علم تم کو حاصل ہوجائے اسی سے مجروح ہوجاؤ“
طلوع آفتاب کے وقت اس طرح بیدار ہوجاؤ کہ گویا “دل ایک پرند ہے “
“جو اپنے پر کھولے ہوئے آمادہ پرواز ہے“
اورشکر کرو کہ محبت کرنے کا ایک اور دن نصیب ہوا ہے“
دوپیر کو جب تم آرام کرو تو اس آسائش کی ساعت میں بھی محبت کے کیف بے نہایت سے لطف اندوز ہو“
دن بھر کی محبت کے بعد شام کو گھر آؤ ۔ ۔ ۔ محبت کے احسان مند اور شکر گزار ہوکر-“
“پھر شب کو اس طرح اپنی آنکھیں بند کرو کہ دل محبوب کے لئے دعاؤں سے معمور ہو“
اور تہارے لبوں پر مدح توصیف کی ایک راگنی رقص کر رہی ہو
خلیل جبران