زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
تیر لہجے کا کلیجے میں اُتر جاتا ہے
موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا
شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے
شعبدہ کیسا دِکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے ، بھلے آدمی مر جاتا ہے
آنکھ نہ جھپکوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے
گر جھپک لوں تو یہ جیون یوں گزر جاتا ہے
مندروں میں بھی دُعائیں تو سنی جاتی ہیں!
اشک بہہ جائیں جدھر ، مولا اُدھر جاتا ہے
حسن اَفزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا
پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے
غالبا تخت پہ جنات کا سایہ ہو گا!
کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے
’’ایسی‘‘ باتیں جو ’’اکیلے‘‘ میں نہ ’’دیوانہ‘‘ کرے
بادشہ وہ بھرے دربار میں کر جاتا ہے
گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اَقرب
سر بچا لوں تو مرا ذوقِ ہنر جاتا ہے
قیس! گر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد!
سوچنے والا تو اِس دور میں مر جاتا ہے