تو کیا و ہ اتنی سہولت سے مجھے بھول گئی
تو کیا و ہ اتنی سہولت سے مجھے بھول گئی
تو کیا وہ ساری ریاضت میری فضول گئی
مجھے بھلا دیا ہوتا فقط تو جائز تھا
وہ میرے ساتھ مگر خود کو بھی تو بھول گئی
لڑکپنے میں بڑھاپے کے آ گئے آثار
میں خود کو تھامنے لپکا تو سانس پھول گئی
کبھی کسی نے مجھے آنکھ بھر کے دیکھ لیا
تو تیری یاد اچانک ہوا میں جھول گئی
وہ شام جب سے تیرے غم سے پھیر لیں آنکھیں
وہ شام خود میرے گھر سے بہت ملول گئی
عجب طرح سے ہوئی منقسم مسافتِ دل
سفر کہیں، تو کہیں راستوں کی دھول گئی
Armaghan Khan