بیرسٹر اعتزاز احسن نے جس انداز میں پریس کانفرنس کی اورفرد ِ جرم سے ہٹ کر سزا کا ذکر کیا۔ اس سے بھی واضح ہے کہ وزیراعظم نااہل ہوچکے ہیں وگرنہ مرنجاں مرنج اور شاعر مزاج قانون دان کالہجہ تلخ اور انداز ِ گفتگو جارحانہ نہ ہوتا۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں مخدوم یوسف رضا گیلانی نے یہ کہہ کر فیصلے کی وضاحت کردی کہ ”مجھے صرف سپیکر قومی اسمبلی نااہل قرار دے سکتی ہیں کوئی فیصلہ آجائے میں نااہل نہیں ہوں گا“ اگر فیصلے میں ابہام ہوتا اوروزیراعظم نااہل قرار نہ پاتے تو انہیں سپیکر کو عدالت لگانے اور اپوزیشن کو تحریک ِ عدم اعتماد لانے کی دعوت دینے کی ضرورت نہ تھی۔ قومی اسمبلی کے فلور پر تقریر میں تو وزیراعظم نے اعلیٰ عدلیہ کے ہر اس فیصلے کو نہ ماننے کااعلان کیا جس کے ذریعے وہ نااہل قرار پاتے ہوں ایسی صورت میں ہمارے آج کے دانشوروں، قانون دانوں، اینکرپرسنز اور کالم نگاروں کاموقف کیاہوگا؟ جو فیصلے کو مبہم قرار دے کر وزیراعظم اور حکومت کی پارسائی کے گن گا رہے ہیں؟
کوئی مانے نہ مانے واضح عدالتی فیصلے کو نہ مان کر حکومت نے ملک میں آئینی، قانونی اور سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔ سب سے زیادہ مشکل میں سرکاری ملازمین ہیں جنہیں عدالتی فیصلہ اور سزایافتہ وزیراعظم کے احکامات کا سامنا ہے۔ وہ دو پاٹوں کے بیچ میں پھنس چکے ہیں۔ 3نومبر2007کو عدالت عظمیٰ کے سات رکنی بینچ کا فیصلہ نہ ماننے والے ججوں کو بالآخر گھر جانا پڑا۔ اگر منتخب حکومت میں طبقاتی غیرت ہوتی اوروہ این آر او کے شکنجے میں نہ جکڑی ہوتی تو جنرل پرویز مشرف اور ان کے غیرآئینی، غیرقانونی احکامات پر عمل کرنے والے دیگر سرکاری و فوجی افسران کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتی جو عدلیہ نے اپنی صفوں میں گھسی کالی بھیڑوں کے ساتھ کیا مگر ہمارے منتخب حکمران صرف اپوزیشن، عدلیہ اور میڈیا کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں طاقتوروں سے چھیڑچھاڑ نہیں کرتے کہ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ عدالتی فیصلے پر حکومتی ردعمل کے بعد پاکستان عالمی سطح پر اور جمہوریت قومی سطح پرتماشہ بن گئے ہیں۔
یہ صورتحال1977اور 1993 سے ملتی جلتی ہے 1977 میں ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے دھاندلی زدہ انتخابات کے بل بوتے پر اپنے وزیراعظم رہنے پراصرار کیا۔اپوزیشن کی ایک نہ سنی اور عوام کو احمق جانا۔ ایک ہائی کورٹ نے جزوی مارشل لا کو ناجائز قرار دیا تو پارلیمینٹ نے اپنے اقدام کی توثیق کردی۔ اپنی مضبوط کرسی کا ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے خلاف سازشوں کا پروپیگنڈہ کیا۔ 1993 میں حاجی سیف اللہ خان کے پرزور مشورے کے برعکس وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب میں ایڈمنسٹریٹر ہونے کے لئے قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی اور وفاقی اداروں کو پارلیمینٹ کے علاوہ چیف ایگزیکٹو کے احکامات ماننے پر مجبور کیامگر دو تہائی اکثریت کے حامل دونوں وزرائے اعظم کو ناکامی ہوئی کیونکہ بحران شدید تھا اور سیاستدان اسے آئین و قانون اورقاعدے ضابطے کے علاوہ سیاسی اخلاقیات کے تقاضوں کے تحت نمٹانے میں ناکام رہے۔ ڈیڈ لاک پیدا ہوا اور گیند فوج کی جیگ برانچ کی کور ٹ میں چلی گئی جس کا فیصلہ تھا کہ پارلیمینٹ اور چیف ایگزیکٹو غلط ہیں۔ 1977 میں اپوزیشن اور حکومت کے مابین محاذ آرائی شدید تھی بھٹو اپوزیشن کی کوئی بات ماننے پرتیار نہ تھے اور اپوزیشن بھٹو کی حکمرانی کو جائز نہیں سمجھتی تھی۔ 1993 میں وفاق اور صوبے کے مابین تنازع تھا۔ میاں نوازشریف وفاق کی نمائندگی کررہے تھے اور صوبہ پنجاب میاں منظوروٹو اور چودھری الطاف کے پاس تھا جنہیں محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی تائید و حمایت حاصل تھی۔ خفیہ ایجنسیاں وٹوکی پشت پر تھیں بالآخر مرکز اورصوبے کی تمام حکومتیں رخصت ہوئیں کیونکہ بحران سے نمٹنے کا واحد حل یہی تھا۔
اس وقت مخدوم یوسف رضا گیلانی سزایافتہ ہونے کے باوجود پارلیمینٹ اور سپیکر کو اپنی ڈھال بنا رہے ہیں۔ ملک کے اہم ، فعال اور طاقتور ادارے عدلیہ کو انہوں نے بالکل نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ سزا یافتہ شخص کے احکامات پرعملدرآمد کے سلسلہ میں وفاقی بیوروکریسی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے علاوہ فوج میں تحفظات جنم لے چکے ہیں۔ وزیراعظم کا شاید یہ مسئلہ نہ ہو مگر باقی سب جانتے ہیں کہ عدالتی نظام غیرموثر ہوا تو انارکی میں مزید اضافہ ہوگا اور دلیل کے بجائے طاقت کی منطق پروان چڑھے گی۔ امریکہ جیسی سپرپاور کے صدارتی انتخاب میں الگور نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر صاد کیا۔ عوام کی عدالت سے رجوع کرنے اور عوامی فیصلے کو قبول کرنے کا مضحکہ خیز اعلان نہیں کیا حالانکہ پاپولر ووٹ وہ لے چکے تھے مگر جمہوریت کے استحکام کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ کا متنازع فیصلہ تسلیم کرکے دنیا بھر کو پیغام دیا کہ عدالتیں ہی فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں اور انہیں ماننا ہر معقول، مہذب اور باشعور شخص کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا باوا آد م ہی نرالا ہے وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے اور طاقت کے سامنے جھکتے ہیں۔ یہ طاقت بندوق کی ہو یا ہجوم کی دونوں صورتوں میں قابل قبول ہے اور وہ دوسروں پر اسی کے ذریعے چڑھ دوڑتے ہیں۔ ان دنوں بندوق والے خاموش اور پرسکون ہیں اس لئے ہجوم کی طاقت سے عدلیہ، میڈیا، ملک کے سب سے بڑے صوبے اور مخالفین کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گیلانی صاحب نے عدالتی فیصلوں کو نہ ماننے کا دوٹوک اعلان کردیا ہے اور اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کا چیلنج دیا ہے۔ اپوزیشن انہیں قانونی وزیراعظم نہیں مانتی، تحریک اعتماد نہیں لاسکتی تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ حکومت چلتی رہے یا گھر جائے اور نئے انتخابات ہوں؟ سپیکر توپیپلزپارٹی کی ہیں کیا وزیراعظم اپوزیشن کو 1977 اور 1993 کی طرح کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔لانگ مارچ ، سڑکوں پر احتجاج یا مقتدر قوتوں سے سازباز؟ جیساکہ 1993 میں ہوا کیا اس طرح جمہوریت اور ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کا راستہ رک جائے گا؟ محترمہ بینظیر بھٹو کہاکرتی تھیں کہ جنرل ضیاء الحق مارشل لا نہیں لگا نا چاہتے تھے مگر جونیئرافسروں نے انہیں مجبور کردیا۔ وزیراعظم کا فرمان ہے کہ جنرل کیانی جمہوریت سے مخلص ہیں یقینا جونیئر افسر بھی… ہمیں یقین ہوا ، ہم کو اعتبارآیا۔