کیا ہمارے نصیبوں میں ایسی بدنصیبیوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں؟
ہر روز کوئی حادثہ، سانحہ، واقعہ یا تماشہ… نہیں تو کوئی جھنجھنا… ایک کھلونا باسی ہوتا ہے تو لوگوں کو دوسراتھما دیا جاتا ہے اور وہ پھر خشوع وخضوع سے اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔لوگ کیا ہیں، لڈو کے دانے ہیں اور ملک یوں چل رہا ہے جیسے سانپ سیڑھی کا کھیل۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
جرائم پیشہ معززین جیلوں اور عدالتی پیشیوں سے آتے جاتے اس طرح وکٹری کے نشان بناتے ہیں جیسے سزا سن یا کاٹ کر نہیں بلکہ کشمیر فتح کرکے آ رہے ہوں۔ ہماری کیا دنیا کی تاریخ میں لکھے گئے خطوط نے اتنا کہرام نہیں مچایا جتنا ایک نہ لکھے گئے خط نے مچا دیا ہے تو میں اسے قومی کارنامہ لکھوں یا کار بیکار۔ جتنے منہ ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ باتیں اور مجھ جیسے غیرجانبدارعوام سرپکڑے سوچ رہے ہیں کہ سچا کون اور جھوٹا کون؟ تنگ آ کر اس نتیجہ پر بھی پہنچا جاسکتا ہے کہ یہ سب چور اپنی اپنی جگہ سچے ہیں اورجھوٹے صرف عوام جن کے حالات بد سے بدتر لیکن سیاسی قوال قومی اسمبلی کے اندر حال مست اس قوالی میں مصروف کہ اک طرف سے نعرہ لگتا ہے…
”آئے آئے گا وزیراعظم آئے گا“
دوسری طرف سے جواب آتا ہے…
”جائے گا جائے گا وزیراعظم جائے گا“
قوم جائے بھاڑ میں
چھاج تو چھاج چھلنیاں بھی بول رہی ہیں
ایک ”سابق“ سزایافتے کا کہنا ہے:
”سزا یافتہ شخص کو وزیراعظم نہیں مانتے“
اپیل کا حق ہے تو آخری دلیل اورفیصلے سے پہلے مجرم کیسا؟ ادھراعتزاز کی اس بات کوکدھر پھینکیں کہ عدالت نے وزیراعظم پر وہ چارج لگایا جو فردِ جرم میں شامل ہی نہیں۔ ہر نیا مرحلہ قوم کو مزید منقسم کئے دیتاہے۔ کچھ گولیاں چلا رہے ہیں، کچھ مٹھائیاں تقسیم کرہے ہیں اور عوام کی اس تقسیم پر خوش صدر مملکت فرماتے ہیں…
”عوامی فیصلہ کسی دوسرے فیصلہ سے زیادہ وزنی ہے“
اور عوامی فیصلہ یہ کہ پیپلزپارٹی نے ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 194 میں ن لیگ کو شکست دے کر نشست چھین لی ہے۔ کیا ن لیگ کو اب بھی اس بات کا اندازہ نہیں
کہ ”میم لیگ“ یعنی ”مستقبل لیگ“ آنے والے دنوں میں ان سے مزید کیا کچھ چھین سکتی ہے؟ ملتان تو بہت دور مری جان! اگر لاہور کے لالے نہ پڑ گئے تو جو یوسف رضا گیلانی کی سزا وہ میری کہ سانپ بھی مر گیا، لاٹھی بھی نہ ٹوٹی اورصورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی، کنفیوژن میں اور اضافہ ہو گیا۔قوم پہلے بھی ”اب کیا ہوگا؟“ کی سولی پر ٹنگی تھی اور اب بھی اسی سولی پر لٹکی ہے تو مجھے بچپن کا وہ ”شعر“ یاد آ رہا ہے جسے ہلکی سی ترمیم کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ میں اورمیرے کلاس فیلوز اساتذہ کی تبدیلی پر آواز سے آواز ملا کر گایا کرتے تھے۔
”ہیلن آف ٹرائے
کوئی آئے کوئی جائے“
مطلب یہ کہ استاد ناطق علی صاحب ہوں یا کوئی عاشق علی صاحب… ہم نالائقوں نے ہرحال میں بید ہی کھانے ہیں۔ وزیراعظم سزا یافتہ ہو یااخلاق باختہ… یوسف رضا یا یوسف قضا، قوم نے تو ڈنڈے یادھکے ہی کھانے ہیں۔ پشت پر پڑنے والا چھتر بھینس کی کھال کا ہو یاگائے کی، اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ کٹاری سونے کی بھی ہو، پیٹ پھاڑنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور پھانسی کا پھندا خالص ریشم کا بھی ہو توگردن توڑ دیتا ہے کہ پھانسی کا مجرم بھی بنیادی طور پرپھندے کی وجہ سے نہیں خود اپنے بوجھ کے سبب مرتا ہے۔ ہم سب اپنی جہالت کے بوجھ سے مررہے ہیں، پھندا پیپلزپارٹی کا ہو یا ن لیگ کا… پھندا بہرحال ”بے قصور“ ہے کہ اگر یہ ظالم ہیں تو ہمیں بھی مرنے کا شوق چین سے جینے نہیں دیتا۔ بدنصیب نام اور چہرے بدل کر خوش ہوتے ہیں تو انہیں ان کی ”خوشیاں“ مبارک ہوں۔
چلتے چلتے ”خط“ کے موضوع پردو شعرملاحظہ فرمائیں۔
خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر
دوسرے شعر میں ”مسئلہ“ کا ”حل“ کچھ یوں ہے:
خط کبوتر اس طرح لے جائے بام یار پر
خط کا مضمون ہو پروں پر، پر کٹیں دیوار پر
خط ہویا میمو… اس طرح ہو یا کس طرح؟ ہمیں اور کوئی کام نہیں اور وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔
ہم بھی بہت عجیب ہیں اتنے عجیب ہیں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
چھوٹے بڑے سب ”کس طرح؟“ اور ”اس طرح“ کے چکر میں تباہ ہو رہے ہیں… اور ملال بھی نہیں!