گیلانی صاحب کی عدالتی سزا نے پاکستان میں تاریخ رقم کر دی ہے ۔اس ملک کا چیف ایگزیکٹو عدالت کی حکم عدولی کا مرتکب ہو تا ہے ،اس کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی ہوتی ہے ،اوراس کی سیاسی نا اہلی کے تابوت میں پہلا کیل ٹھونک دیاجاتا ہے ۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس خبر پر افسوس کی جگہ خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے ،خواہ وہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہوں یااس فیصلے کی زد میں آنے والے۔کسی نے اسے چیف ایگزیکٹو کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ قرار دیا اورکسی نے زرداری صاحب پر قربان ہونے کے جذبے کو سراہا۔تیس سیکنڈ کی سزا کو تیس منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ۔اورپاکستان میں مظاہروں کا مطلب صرف اپنا مسئلہ اجاگر کرنا نہیں بلکہ پرائی املاک کو نقصان پہنچانا بھی ہوتا ہے ،سو اس بار بھی یہی سب کچھ ہوا۔جہاں متاثرین نے اپنا غصہ نکالا وہیں اپوزیشن اورحکومتی ناقدین نے وزیراعظم اورپیپلز پارٹی کو اقتدار چھوڑنے کے دھمکی نما ’قیمتی مشوروں‘ سے نوازا۔کسی نے عوامی حمایت کے بل پر سونامی مارچ کا اعلان کیاتو کسی نے اٹھارہ کروڑعوام کو عدالت کی پشت پر قرار دیا۔میڈیا اینکر پرسنز سے لے کر سینئر سیاستدانوں تک ،سب نے ہی عوام کی نمائندگی کی کہ عوام چاہتے ہیں کہ گیلانی صاحب مستعفی ہوں ،عوام چاہتے ہیں کہ سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے اورتو اورعوام یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ حکومت اب گھر جائے ۔لیکن عوام کا ایک حصہ ملتان میں دوسری طرح سے تاریخ رقم کر رہا تھا۔ فیصلے کے چندگھنٹوں بعد ملتان کی صوبائی نشست پی پی 194پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عثمان بھٹی کامیاب قرار پائے ۔یہ کون سے عوام تھے ؟24سالہ تاریخ میں مسلم لیگ کی روایتی نشست پرپہلی بار پیپلز پارٹی کی جیت کو کس عوام نے ممکن بنایا ؟
یہ وہ عوام ہے جوپیپلز پارٹی کو سرائیکی صوبے کے لئے متحرک ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے ،یہ وہ عوام ہے جوسرائیکی صوبے کے قیام میں اپنی 64سالہ حق تلفیوں کا ازالہ دیکھ رہی ہے ۔اورکچھ نے توشایداس لیے ووٹ دیا ہوکہ مجوزہ سرائیکی بینک سے قرضہ ہی مل جائے۔یہ وہی عوام ہے جو جھوٹے وعدوں اوررنگ برنگے نعروں پرایمان لے آتی ہے ۔یہ وہ عوام ہے جوالیکشن سے چند ماہ قبل ملتان پہنچنے والے صدرکا کھلے دل سے استقبال کرتی ہے اوریہ شکوہ بھی نہیں کرتی کہ آپ اب تک کہاں تھے ؟یہ وہ بھولی عوام ہے جو سمجھتی ہے کہ گیلانی صاحب نے ان کا کہا مان کرعدالت سے سزاتو قبول کر لی لیکن سوئس عدالت کو خط نہیں لکھا ۔کیوں کہ گیلانی صاحب نے جو کچھ کیا ہے وہ ان سے پوچھ کرہی تو کیا ہے ۔ ”اگر میں لکھداآں تے میں آئین دا منحرف تھینداں،اگر میں آئین دا منحرف تھینداں تے اودی سزاموت اے،اگر میں نئی لکھدا ول آکھدے این سائیں اے توہین عدالت اے،ول میں سچینداپیاں کہ میں تواڈے کولوں پچھاں کہ توہین عدالت دی سزاچھی مہینے اے تے بغاوت دی سزاموت اے،میں سزائے موت مناں یا چھی مہینے دی قید مناں؟“(اگر میں خط لکھتا ہوں تو آئین سے منحرف قرار پاتا ہوں اوراگر نہیں لکھتا تو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہوں ۔آئین کی خلاف ورزی کی سزا موت ہے جبکہ توہین عدالت کی سزا چھ ماہ قید ہے۔آپ ہی بتائیں کہ میں کون سی سزا قبول کروں ،چھ ماہ قید یا سزائے موت؟)حیرت ہے کہ گیلانی صاحب نے اعتزاز احسن کو اپنا قانونی مشیر مقرر کیا ،جبکہ وہ تو خودقانون کوبہت باریکی سے سمجھتے اور سمجھاتے بھی ہیں ۔لیکن میں نہیں سمجھی (حالانکہ سرائیکی ہوں) ۔میرا تو سادہ سا سوال ہے کہ آئین کی کسی شق پر عمل نہ کرنا اورآئین کو توڑنا کس طرح برابر ہو سکتا ہے ؟کیونکہ سزائے موت آئین توڑنے پر صرف تجویز کی گئی ہے ،ملتی نہیں ہے ۔قانونی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنا بہر حال جرم تو ہے ۔لیکن کیا کریں ۔ایسے عدالتی فیصلے شہروں میں ،میڈیا پر اورکمرہ عدالت میں تو سمجھے جا سکتے ہیں لیکن گلی محلوں اوردیہات میں بسنے والے عوام کی سمجھ سے یہ بالاتر ہیں ۔ان کی سمجھ میں استثنیٰ اورتوہین عدالت جیسے ثقیل الفاظ تو نہیں آتے لیکن سرائیکی صوبہ بنانے جیسی عوامی بات سب کے دماغ میں بیٹھ گئی ہے ۔فیصلہ وہ نہیں جو 26اپریل کو آیا بلکہ فیصلہ وہ ہے جو پیپلز پارٹی نے ان سے سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کرکے کیا ہے اورفیصلہ وہ بھی ہے جو پی پی 194کے عوام نے دیا ۔
تو پھر یہ بات طے ہوئی کہ ہم جو صحافت کرتے ہیں۔ اوروہ جو اسمبلی سے بائیکاٹ یا سونامی کی سیاست کرتے ہیں ،ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں ہے ۔عوام میڈیا پرسنز کی تقریروں یاخان صاحب کے تجزیوں پر کہاں کان دھرتی ہے ۔اس کو تو ایک ٹوٹے نلکے کی مرمت ،ہزاربارہ سو کی نوکری اورتھانے کچہری کے معاملات میں معاونت سے مطلب ہے ۔جو میڈیا کی ریٹنگ بڑھاتے ہیں ان میں سے تو کئی ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ووٹ ڈالنے تو یہ لوگ نکلتے ہیں جن کے گھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے چل رہے ہیں ،جو جھوٹے خواب خریدنے کی قیمت ووٹ کی صورت میں چکاتے ہیں ۔اوراس امیدپر ووٹ ڈالتے ہیں کہ شاید ان کے منتخب نمائندے جب الیکشن جیت کر آئیں گے تو ان کے بچے بھی اسکول جائیں گے اورشاید کہ ان کے دن بھی پھر جائیں گے۔لیکن اس عوام کی قسمت میں دن پھرنا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنا انگوٹھا استعمال کرنا سیکھا ہے، دماغ نہیں ۔ ہم میں سے پچھتر فیصد کو تو جمہوریت کا مطلب بھی نہیں پتا اور جن کوانگوٹھے کی جگہ دستخط کرنا آتا ہے وہ جمہوریت کا مطلب گڈ گورننس نہیں بلکہ شہادت اورجیلیں کاٹنے کو سمجھتے ہیں۔ہمیں جمہوریت کے نام پر بہنے والے خون کا احسان با ر بارجتایا جاتا ہے ۔جبکہ آمریت کے بت میں صرف سیاسی شہیدوں کے خون نے نہیں بلکہ قطرہ قطرہ بہنے والے عوام کے پسینے نے بھی سوراخ کیا ہے ۔شاید گیلانی صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں ’پنج سال تے میں پہلے ای بھگت آیا ں ،تے چھی مہینے وی بھگت گھن سوں،کی فرق پوندا اے۔‘تیس سیکنڈ،چھ ماہ یا پانچ سال واقعی کیا فرق پڑتا ہے !