جہاز کے سفر کے دوران ذہن میں عموماً د و ہی خیال آتے ہیں ،ایک خوف اور دوسرا بوریت۔جہاز جب رن وے پر ٹیک آف کرنے کے لئے دوڑتا ہے تو ایک دفعہ تو ملحد سے ملحد بندہ بھی خدا کو یاد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔تاہم ملحد کا ”ایمان“ اس وقت تک ہی ڈولتا ہے جب تک جہاز فضا میں بلند ہو کر متوازن پرو از نہیں کرنے لگتااور ائیر ہوسٹس چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھانے کی ٹرالیاں کھسکانی شروع نہیں کر دیتیں ۔مجھے بھی جہاز کے سفر سے خوف آتا تھا مگر جوں جوں میں نے زیادہ سفر شروع کئے ،یہ خوف کم ہوتا گیا۔اس خوف میں کمی اس وقت ہوئی جب مجھے اس بات کا ادراک ہوا کہ دنیا میں لگ بھگ ایک لاکھ فلائٹس روزانہ ٹیک آف اور لینڈ کرتی ہیں ۔2010میں عالمی فضائی حادثات کی شرح (Global Accident Rate) کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی جو 0.61تھی یعنی 16لاکھ فلائٹس میں سے ایک حادثے کا شکار ہوئی ۔2001کے مقابلے میں یہ شرح بہت بہتر ہے اور نسبتاً 42%کم ہے۔2010میں تاریخ میں پہلی مرتبہ شمالی امریکہ اور یورپ میں کسی فضائی حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔اس سال پوری دنیا میں 23جان لیوا فضائی حادثے ہوئے جن میں 786اموات ہوئیں ۔بظاہر یہ تعداد زیادہ لگتی ہے مگر اس سال ہوائی جہاز کا سفر کرنے والوں کی تعداد 2.42ارب تھی۔اس لحاظ سے فضائی سفر باقی تمام ذرائع آمد و رفت کے مقابلے میں کہیں محفوظ سمجھا جاتا ہے۔لیکن ان تمام اعداد و شمار کا ”پٹھا“ اس وقت بیٹھ جاتا ہے جب دنیا میں کہیں بھی اور خاص طور پر اپنے ملک میں کوئی جہاز تباہ ہوتا ہے۔ بھوجا ائیر لائنز نے میرا کم ہوتا ہوا خوف دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔
بھوجا ائیر لائن کا جو طیارہ راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہوا وہ بوئنگ 737کا 200سیریز کا طیارہ تھا ،اس سیریز کے طیارے کم از کم 24سال پرانے ہیں اوردنیا بھر میں یہ طیارے اب صرف غریب ممالک کی تھکی ہوئی ائیر لائنز ہی استعمال کرتی ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین 900سیریز کے طیارے پرواز کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ وہ بدقسمت مسافر جو اس جہاز میں سوار ہوئے ،شائد انہیں اپنے ملک کے سسٹم پر کچھ اعتماد تھا ،انہیں یقین تھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی با قاعدہ ایک ادارہ ہے جس کا کام جہازوں کا معائنہ کرکے اسے اڑنے کے لئے موزوں قرار دینے کا سرٹیفکیٹ دینا ہے ۔لیکن شائد انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اس سرٹیفکیٹ کی اوقات ”کیریکٹر سرٹیفکیٹ “سے زیادہ نہیں ہوتی جو بستہ الف کے بدمعاش کو بھی جاری کر دیا جاتا ہے ۔اس طیارے کوپرواز کا لائسنس دینے کا فیصلہ جس نے بھی کیا ،اس نے دراصل 127 مسافروں کے موت کے پروانے پر دستخط کئے ۔اگلی فکر کی بات یہ ہے کہ بھوجا ائیر لائن کے استعمال میں ڈی سی 9سیریز کا طیارہ بھی شامل ہے جس کے (خدانخواستہ) تباہ ہونے کا چانس اس طیارے سے کہیں زیادہ ہے جو حال ہی میں تباہ ہوا ہے۔ڈی سی9 سیریز کا آخری جہاز 1982میں بنا تھا اوراب یہ دیکھنے میں اڑن کھٹولہ لگتا ہے۔پی آئی اے کے جہاز بھی خاصے پرانے ہیں سوائے ATRکے جو ملتان فوکر حادثے کے بعد خریدے گئے۔
جہاں تک موسم کی خرابی کی وجہ سے جہاز کے تباہ ہونے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ یہ وجہ بھی ہو کیونکہ جہاز بہت خستہ حال تھا مگراس حادثے کے ٹھیک دو منٹ بعد پی آئی اے کی پرواز نے اسی ائیر پورٹ پر لینڈ کیا ۔دراصل اس قسم کی سستی ائیر لائنز میں ایک قباحت یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے خرچے بچانے کے لئے یہ موسم کی خرابی کے باوجود جلد از جلد منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاز کا رخ کہیں اور نہیں موڑتے۔اس صورت میں انہیں مسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرانا پڑتا ہے ،ایندھن کا خرچہ ہوتا ہے ،ائیرپورٹ کا کرایہ اور دیگر خرچے ان کا منافع ختم کرکے الٹا نقصان کر ڈالتے ہیں ۔اور رہی بات موسم کی تو یہ بھی بعید از قیاس ہے کیونکہ آج کل کے دور میں ہوائی جہازوں کو شدید ترین موسمی حالات میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے ، انہیں منفی پچاس ڈگری والے سرد ترین علاقوں اور شدید گرم علاقوں میں اڑایا جاتا ہے ،حتی کہ جہازوں کو طوفانوں میں بھی اڑا کر چیک کیا جاتا ہے۔اس مقصد کے لئے ٹیسٹ پائلٹ ہوتے ہیں جن کی تنخواہیں عام پائلٹس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں ۔کہنے کا مقصد ہے کہ اگر بارش اور تیز ہوا کے چلنے کو خراب موسم سمجھنا شروع کر دیا جائے تو یورپ کے آدھے سے زیادہ ائیر پورٹ بندہو جائیں جہاں zero visibility landingہوتی ہے۔
دو سال پہلے ائیر بلیو کی پرواز کا حادثہ بھوجا ائیر سے بالکل مختلف ہے ۔ائیر بلیو کے پاسA 319، A 320اور A 321سیریز کے جدید اور بہترین جہاز ہیں ۔یہاں حادثے کی وجہ جہاز کی خرابی نہیں بلکہ پائلٹ اور کو پائلٹ کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان تھا۔Crew Resource Managementہوابازی کی تکنیک کا نہایت ہی اہم جزو ہے ،بے شمار فضائی حادثے اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ جہاز کے عملے کے مابین ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ائیر بلیو کا کپتان پی آئی اے کا ریٹائرڈ پائلٹ تھا جبکہ اس کا ساتھی پائلٹ ائیر فورس سے آیا تھا۔پاکستانی ہوا بازی میں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پی آئی اے کے ریٹائرڈ (یا حاضر) پائلٹ اور ائیر فورس سے تربیت یافتہ پائلٹس کے درمیان پیشہ وارانہ حسد پایا جاتاہے کیونکہ ایک پائلٹ بننے کے لئے کسی عام آدمی کو تیس پینتیس لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ ائیر فورس میں بھرتی ہونے والوں کے لئے یہ کام مفت میں ہو جاتا ہے ،یہی وجہ حسد کا باعث بنتی ہے ۔مزید براں ،ائیر فورس کے پائلٹس کی تربیت فوجی انداز میں کی جاتی ہے اور انہیں ”یس سر“ کہنے کی عادت ہوتی ہے ۔ائیر بلیو کے حادثے میں یہی عادت جہاز کو لے بیٹھی۔جہاز کے کپتان کو کنٹرول ٹاور نے بیسیوں مرتبہ تنبیہ کی کہ کیا اسے سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں دکھائی نہیں دے رہیں ؟ یہی بات اس کا ائیر فورس کا ساتھی کپتان بھی کہتا رہا مگر پائلٹ ”اللہ توکل“ اڑتا رہا اور کو پائلٹ نے بھی کپتان کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور با لآخر جہاز پہاڑیوں سے ٹکرا گیا۔
دعا سے سفر کا آغاز کرنا یقینا نیک شگون ہے لیکن ہمیں اس بارے میں بھی سوچنا ہوگا کہ امریکی اور یورپین ایئر لائنز کوئی دعا پڑھے بغیر اپنے مسافروں کو اڑا لے جاتی ہیں اور اس کے باوجود ان کے ہاں فضائی حادثات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔جبکہ ہم ہر حادثے کے بعد ”خدا کو یہی منظور تھا“ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔