شاید آپ کو عجیب لگے کہ 4سال پہلے تک پاک فوج میں اپنے شہدا کو یاد کرنے کی کوئی باضابطہ روایت نہیں تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل مشرف اور ان کے سارے پیشرو حضرات کی اولین ترجیحات میں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا مقام کیا تھا؟سب سے پہلے اس طرف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے توجہ دی اور فیصلہ کیا کہ ہمارے جو افسر اور جوان وطن کی آزادی‘ خودمختاری اور دفاع کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں‘ انہیں باضابطہ خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک روایت کی بنیاد ڈالی جائے۔ جس کے تحت افواج پاکستان ہر سال یوم شہدا کی تقریبات کا انعقاد کریں۔ وطن کے ساتھ اپنا عہد وفا دہرائیں۔ وطن پر قربان ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کی روایت سے وابستہ کرتے ہوئے عملی مظاہرے کریں۔ شہید کو اللہ تعالیٰ نے جو رتبہ اور عظمتیں عطا فرمائی ہیں‘ انہیں یاد کرتے ہوئے اپنے اپنے سینوں میں جذبہ شہادت کی روشن شمعوں کو جلا دیں اور شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کا سبق دہرائیں۔اب پاک فوج میں یوم شہادت کی روایت قائم ہو چکی ہے۔ کل 30 اپریل کو پاک فوج کے تمام مراکز میں یوم شہادت کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی راولپنڈی میں خود یوم شہدا کی تقریب میں شرکت کریں گے۔میں عموماً پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں اچھی کارکردگی کو معمولات کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس لئے عموماً انفرادی تحسین و تعریف سے گریز کرتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی پورے ادارے کی طویل غفلت کا سلسلہ توڑتے ہوئے ایک ایسی روایت کا آغاز کرے‘ جسے درحقیقت بنیادی ضروریات میں سرفہرست ہونا چاہیے تو اس کا اعتراف نہ کرنا بھی ناقدری ہو گی۔ میں شہداء کی یادیں تازہ کرنے کے معاملے میں طویل عرصے تک برقرار رکھی گئی غفلت پر صرف ایک ہی بات کہہ سکتا ہوں کہ جنرل کیانی کے جتنے بھی پیشرو تھے‘ ان سب کی ترجیحات کچھ بھی رہی ہوں‘ مگر شہداء کی قربانیوں کے اعتراف کی شاید ان کی ترجیحات میں گنجائش نہیں تھی۔
اگر آپ دیگر ملکوں کی فوجی روایات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ شہدا کی یادوں کو تازہ کرنے کا اہتمام ہر دفاعی ادارے میں کیا جاتا ہے۔ یہ اجتماعی سطح پر بھی ہوتا ہے‘ ڈویژنوں اور یونٹوں کی سطح پر بھی اور اکثر حالات میں قومی سطح پر بھی۔ ہر ملک میں نمایاں طور پر شہدا کی یادگاریں بنی ہوئی ہیں اور بیشتر ملکوں میں ان شہدا کی یاد منانے کے لئے قومی دن بھی رکھے گئے ہیں۔ اس دن اپنے ملک کے شہیدوں کو یاد کرنے کے لئے پوری قوم جذبات عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔ مملکتوں کے سربراہ ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ شہدا کے ورثا کو خصوصی عزت و احترام اور عقیدت کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔ تحائف دیئے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ پوری قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کو عقیدت و محبت کے پھول پیش کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ پاکستان کی تو بنیادیں ہی شہیدوں کے خون پر کھڑی ہیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ قومی سطح پر ابھی تک ہم نے تحریک آزادی میں شہادتیں پیش کرنے والوں کی یادیں تازہ کرنے کے لئے کوئی خصوصی دن مقرر کیا ہے۔ مختلف تاریخی دنوں کے مواقع پر شہیدوں کو غیررسمی طور پر یاد کر لینا یا ان کی قبروں پر جا کر قرآن خوانی کرنا تو دیکھنے میں آتا ہے لیکن کوئی ایک دن ہم نے شہدائے پاکستان کے لئے مخصوص کیا ہو۔ اس کا مجھے علم نہیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اقتدار کا گندا کھیل اتنا غلیظ ہو چکا ہے کہ ہمارے پاکیزہ جذبے بھی ہماری باطنی آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کون کون سے دن ہیں جو ہمیں اپنے باطن میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؟ اور وہ کونسا دن ہے جو ہمیں ذاتی خواہشات اور ضروریات کی زنجیریں توڑ کر اپنے اجتماعی وجود میں شامل ہونے کی لذت سے ہمکنار کر سکتا ہے؟ ہم اپنی ذات کے قطرے کواپنے سمندر کی وسعتوں کا حصہ بنا سکیں۔ہم اپنی سمٹی ہوئی شخصیت میں سہمی ہوئی خواہشوں کو کھلی اور آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے کے لئے آزاد کر سکیں۔ ہم نے اجتماعی اور قومی زندگی گزارنے کے طور طریقے ہی بھلا دیئے ہیں۔ ہم صرف اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں۔ خاندان تک محدود رہتے ہیں۔ پیشہ ورانہ رابطوں تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری دنیا کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسی زندگی میں اجتماعیت کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور ایسی زندگیاں گزارنے والے افراد اپنی قوم کو تشکیل بھی نہیں دے سکتے۔ افراد کو قوم میں بدلنے کا عمل اپنے آپ نہیں ہوتا‘ اس کے لئے خصوصی اہتمام کرنا پڑتے ہیں۔ قومی دنوں کی تقریبات‘ تاریخ کے ساتھ اپنے رشتوں کی تجدید کے مظاہرے‘ میلے ٹھیلے‘ تہوار‘ عیدین کی نمازیں‘ یوم آزادی‘ یوم شہدا‘ قوم کی تاریخی کامیابیوں کی یادیں دہرانے کے لئے اجتماعات کا انعقاد‘ ہر شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والے قومی ہیروزکی پذیرائیوں کے جگہ جگہ اہتمام‘ مشاعرے‘ ادبی محفلیں‘ درس و تدریس کی مجالس جیسے پرانے زمانے کے علما منعقد کیا کرتے تھے۔ یہ میری قوم کی شناختیں ہیں۔ ایسی ہی چیزیں دیگر قومیں اپنے وجود کو تشکیل دینے اور اس کی نشوونما کرنے میں استعمال کرتی ہیں۔ ہم نے تو سب کچھ ہی گنوا دیا ہے۔ غریبی‘ بھوک ننگ‘ بیروزگاری کے بہانے سے قومی وجود کے تقاضوں کو نظراندازکرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ کوئی تہوار یا کوئی تہذیبی سرگرمی ہمیں اس پر مجبور نہیں کرتی کہ ہم اپنی سماجی ذمہ داریوں کو نظراندازکر دیں۔ ہمارے ملک میں عیسائی اور ہندو بہنوں بھائیوں کی حالت عمومی طور پر زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ کبھی انہیں اپنے تہذیبی اور مذہبی اجتماعات میں دیکھئے۔ وہ غریبی کے باوجود ممکنہ طور پر اچھے لباس پہننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اپنے تہواروں سے محدود وسائل کے اندر لطف اندوز ہوتے ہیں اور جو سب سے بڑی مسرت جو وہ حاصل کرتے ہیں وہ ہے‘ اجتماعیت سے جنم لینے والاوہ سرور جو روحوں کو تروتازہ کر دیتا ہے۔ ہم نے تو اپنے مذہبی تہواروں میں مضمر خوشیوں سے بھی لطف اندوز ہونا چھوڑ دیا ہے۔عیدین کی نمازیں پڑھنے کے بعد جب ہم گلے ملتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ایک روبوٹ مشینی طور پر دوسرے روبوٹ کو اس طرح سے چھو رہا ہے‘ جیسے یہ حرکات اس کے اندر پروگرام میں رکھ دی گئی ہوں۔ اپنائیت اور وہ انسانی خوشی نماز عید کی بغلگیری میں بھی نہیں ملتی جو اخوت و محبت کے جذبوں سے جنم لیتی ہے۔ میں تمنا ہی کر سکتا ہوں کہ ہم بھی اجتماعی زندگی گزارنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے طور طریقے سیکھ سکیں۔ ایک قوم کا حصہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
یوم شہدا کی تقریبات میں افواج پاکستان کے تمام شہیدوں کو ہی یاد نہیں کیا جاتا بلکہ انسانیت کی خاطر اپنی جانیں پیش کرنے والے دیگر قومی ہیروز کو بھی عقیدت کے پھول پیش کئے جاتے ہیں۔ ان میں سکیورٹی فورسز کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد‘ جن میں پولیس اور کانسٹیبلری کے لوگ بھی شامل ہیں۔ درحقیقت یہ شعبے‘ پیشے اور طبقے کی تمیز سے بالاتر ہو کر تمام شہدا کی یادیں تازہ کرنے کا دن ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اس دن کی تقریبات کو بیرکوں‘ آڈیٹوریموں اور کانفرنس ہالوں سے باہر نکال کر عوام میں پھیلا دیا جائے۔ شہادت ایک رتبہ ہے۔ ایک اعزاز ہے‘ جس کی ہر مسلمان اپنے دل میں تمنا رکھتا ہے۔ آخر میں اقبال
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یوم شہداء پر لکھا گیا۔