بچپن میں والد صاحب (مرحوم ) نے ایک نواب صاحب جو کسی ریاست سے تعلق رکھتے تھے ، ریاست کا نام اب مجھے یاد نہیں آرہا کا ایک واقعہ سنایا تھا وہ قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔
واقعہ ایسا تھا کہ نواب صاحب کو ہاتھی کی سواری کا بہت شوق تھا اور وہ روز اس پر سوار ہو کر دہلی شہر میں اپنی شان دکھانے کے لئے گھومتے تھے ۔ جس سے جگہ جگہ انہیں دیکھنے کے لئے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے تھے ، بچے تو غالباً ہاتھی کو دیکھنے میں محو ہوتے تھے اور اُس کے پیچھے میلوں نکل جاتے تھے البتہ بڑے بزرگ فرماتے تھے کہ کیا شان ہے نواب صاحب کی۔ دہلی کی انتظامیہ کو (اس زمانے میں انگریزوں کی حکومت ہوتی تھی ) خدشہ ہوا اگر ان نواب صاحب کی دیکھا دیکھی دیگر امراء یا نوابین بھی اسی طرح شہر میں گھومتے رہے تو شہر میں ٹریفک کے نظام میں خلل آئے گا تو دہلی شہر میں ہاتھی کی سواری پر پابندی لگا دی۔ مگر نواب صاحب اپنی شان و شوکت دکھانے سے باز نہیں آئے اور وہ اسی طرح ہاتھی پر سوار ہو کر شہر میں گھومنے نکلے۔ سنتریوں (پولیس والوں) نے نواب صاحب کو روکا اور بتایا کہ ہاتھی پر سواری کرنا خلافِ قانون ہے مگر نواب صاحب نہیں مانے تو سنتریوں نے ان کا چالان کر دیا ۔ نواب صاحب عدالت کا سمن ملنے کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے مجسٹریٹ نے پوچھا کہ کیا آپ نے قانون کی خلاف ورزی کر کے ہاتھی کی سواری کی ہے ، نواب صاحب نے کہا جی ہاں میں نے شہر میں ہاتھی کی سواری کی ہے ۔ مجسٹریٹ نے نواب صاحب کا درجہ دیکھتے ہوئے 10روپیہ جرمانہ کر دیا اس زمانے میں 10روپے ایک پڑھے لکھے شخص کی ایک ماہ کی تنخواہ ہوتی تھی ۔ نواب صاحب نے فوراً 10روپے اپنے منشی سے سرکاری خزانے میں جمع کروا دیئے، دوسرے دن پھر اسی طرح اسی شان سے ہاتھی پر سوار ہو کر دہلی شہر کی ہوا خوری کو نکل پڑے پھر شہر کے کوتوال ( تھانے دار ) نے نواب صاحب کو روکا مگر نواب صاحب نہیں رکے تو اس نے چالان کر دیا ۔ پھر مجسٹریٹ نے دیکھا نواب صاحب باز نہیں آئے تو اس نے اس مرتبہ نواب صاحب کو ڈرانے کے لئے 100روپے جرمانہ کر دیا ، نواب صاحب نے بلا چوں و چرا اپنے منشی کو حکم دیا 100روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا دو۔ اسی طرح تیسرے دن بھی ہاتھی پر سوار شہر میں گھومنے اسی شانِ بے نیازی سے آ نکلے ۔
الغرض پھر چالان ہوا مجسٹریٹ نے اس وقت کے لحاظ سے ناقابلِ برداشت1000روپے جرمانہ کر دیا اور سوچا کہ اب تو نواب صاحب کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا مگر نواب صاحب کی تیوری پر کوئی بل نہیں آیا فوراً منشی کو حویلی سے 1000روپے منگوا کر سرکاری خزانے میں جمع کر وا دیئے کیونکہ ہاتھی کی سواری پر کوئی قید کی سزا نہیں تھی تو مجسٹریٹ بھی مجبور تھا۔ اب نواب صاحب کی شہرت، عزت اور دولت کے چرچے دہلی شہر میں ہونے لگے نواب صاحب پھر بھی باز نہیں آئے ۔چوتھے دن پھر دہلی شہر میں اسی شان سے گھومنے نکلے پھر چالان ہوا ، مجسٹریٹ کو بہت تعجب ہوا کہ نواب صاحب کو اتنے بڑے جرمانے کا کوئی اثر نہیں اس بار اس نے بہت سوچ بچار کر کے صرف 1پیسہ جرمانے کر دیا ۔ اب نواب صاحب کا غصے سے چہرہ سرخ ہو گیا انہوں نے منشی کی طرف غصے سے دیکھا ۔ 1پیسہ جمع کراکر حویلی جانے کا حکم دیا حویلی پہنچ کر اپنے کمرے میں چلے گئے اپنی ریاستی پسٹل نکالی اور باہر آکر ہاتھی کو شوٹ کر دیا اور پھر کبھی باہر نہیں نکلے ۔
یار دوستوں نے پوچھا نواب صاحب آپ نے ہاتھی کو کیوں شوٹ کیا اور اب آپ باہر سیر کو کیوں نہیں جاتے ۔ نواب صاحب نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ اس ہاتھی کی وجہ سے ہم ذلیل و خوار ہو گئے ہم کو مجسٹریٹ نے نواب سمجھنے کے بجائے فقیر سمجھ کر 1پیسہ جرمانہ کر دیا جو ہمارے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ اب ہم کس منہ سے لوگوں کا سامنا کریں گے۔ایسا ہی آج تقریباً 50سال بعد راقم کو ہمارے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سپریم کورٹ کی 7رکنی بنچ کی طرف سے تابرخواستِ عدالت سزا پر یہ پرانا واقعہ یاد آگیا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے12فروری 2012ء کو الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو کا پاس رکھتے ہوئے جو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے انہیں سزا دے دی تو وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں گے اور عوام اور حزب اختلاف کو ہنسے کا موقع نہیں دیں گے ۔
یہاں میں اپنا مختصر ترین کالم اپنے قارئین ، ناقدین اور وزیر اعظم صاحب کے حمایتوں پر چھوڑتا ہوں وہ ماضی اور آج کے نوابوں کا موازنہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ وزیر اعظم جیسے مرتبہ پر فائز کو کیا کرنا چاہئے تھا؟خاص طور پر جبکہ اُن کے دونوں صاحبزادوں پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔