پشاور کے معروف فزیشن ڈاکٹر الف خان نے حال ہی میں اپنی میلنگ لسٹ میں شامل افراد کو ایک ملازمت کا جو اشتہار بھیجا ہے، وہ 1520-1566ء کے دوران سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلیمان نے اپنے دور حکومت میں عظیم الشان مسجد کے امام کیلئے تحریر کروایا تھا۔ اس معلومات کا ذریعہ مشہور مصری اخبار ”الاہرام“ تھا۔ اخبار نے 22ستمبر 1986ء کے شمارے میں یہ اشتہار شائع کیا تھا جبکہ اس کا سیاق و سباق غیر واضح ہے۔ اس وقت مصر میں حسنی مبارک جسے گزشتہ سال عوام کے تاریخی اور بے نظیر احتجاج کے بعد دستبردار ہونا پڑا تھا، کی حکومت تھی۔ انہوں نے 30طویل برسوں تک جابرانہ حکومت کی اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں بشمول اخوان المسلمین اپنی مکمل گرفت میں رکھا۔ عظیم الشان مسجد جو نیلی مسجد کے نام سے معروف ہے اور یقینی طور پر استنبول کی اہم تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے، میں نماز پڑھانے کیلئے پیش امام کی ملازمت سے متعلق اشتہار میں متعدد لازمی خصوصیات مندرج ہیں۔ سلیمان دنیا کے فاتح اور قانون ساز کے طور پر مشہور ہیں، ہر چیز کیلئے انہوں نے اعلیٰ معیار قائم کیا تھا، وہ عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کی سب سے بڑی مسجد کے امام کے ممتاز منصب کیلئے بہترین موزوں امیدوار کو ملازم رکھنا چاہتے تھے۔ اس باوقار منصب کیلئے مندرج ضروری خصوصیات جو خواہشمند امیدواروں کیلئے فہرست میں شامل کی گئی تھیں، وہ درج ذیل تھیں۔
#عربی، لاطینی، ترکی اور فارسی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل ہو۔
#قرآن، بائبل اور تورات پر عبور حاصل ہو۔
#شریعت، فقہ اور لاطینی قانون کا عالم ہو۔
#معیار تعلیم کے مطابق طبیعات اور ریاضی میں مہارت ہو۔
#خوبصورت چہرہ ہو۔
#بلند اور دلنشین آواز ہو۔
اس تفصیل کے مطابق ہونے کیلئے کسی بھی شخص کو حقیقی طور پر ہمہ صفت ہونا چاہئے تھا۔
امیدوار کیلئے صرف قرآن کی تعلیمات سے واقف ہونا ضروری نہیں تھا بلکہ عیسائیوں، یہودیوں کی مقدس کتابوں کا علم ہونا لازمی تھا کیونکہ سلطنت عثمانیہ میں دیگر عقائد کے لوگ بھی آباد تھے۔ پیش امام کیلئے سلطنت میں بولی جانے والی تمام زبانوں، ریاست کے قوانین اور سیکولر مضامین جیسے طبیعات، ریاضی اور ہتھیاروں کا استعمال سے واقف ہونا ضروری تھا اور آخر میں حکمران کی خواہش تھی کہ ان کی مسجد کا پیش امام دلنشین آواز کے علاوہ خوبصورت بھی ہو۔ آخری نکتہ یوں اہم تھا کہ جاذب شخصیت اور خوبصورت آواز کا حامل امام افراد کو مسجد اور مذہب کی طرف راغب کرے گا۔ خوبصورت آواز کی حد تک تو مکہ اور مدینہ دونوں مقدس مقامات میں مساجد کے پیش امام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سعودی بادشاہ بھی سلیمان کی پیش کردہ خصوصیات میں سے چند پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں خصوصاً مکہ کے امام مسجد الحرام شیخ عبدالرحمن السدیس کی آواز اس قدر دلنشین ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے بعض اوقات ان کی تلاوت سن کر اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنے کے قابل نہیں رہتے تاہم سعودی عرب کے حکمرانوں نے اپنی عظیم الشان مساجد کے پیش امام کی ملازمت کیلئے عظیم سلطنت عثمانیہ کے حکمران سلیمان کے اعلیٰ معیار نہیں رکھے۔ اس تناظر میں پاکستان کے بارے میں جتنا کم کہا جائے بہتر ہے۔ درحقیقت پاکستان میں پیش امام پر فائز افراد منصب کیلئے غیر موزوں ہیں اور ان کا مساجد اور مدارس پر کنٹرول کی وجہ سے پاکستان کو چند اہم مسائل درپیش ہیں۔ ڈاکٹر الف خان جن کی ای میل نے متاثر کیا۔ انہوں نے مذکورہ معلومات کو آگے بڑھاتے ہوئے برمحل تبصرہ کیا، وہ پیش خدمت ہے۔ آپ کو یقینا حیرت ہوگی کہ اس مقصد کیلئے ہمارے دارالعلوم کے کتنے گریجویٹ (فارغ التحصیل) اور پبلک سیکٹر جامعات سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والے، اس منصب کے اہل ہوں گے۔ اللہ قوم کو محفوظ رکھے جس کا وفاقی وزیر داخلہ حتیٰ کہ سورئہ اخلاص کی تلاوت نہ کرسکتا ہو۔