میں بھی آپ کی مانند پاکستان کے آئین کا چھوٹا سا طالب علم ہوں لیکن میں وزیر اعظم کی سزا اور ڈس کوالیفیکیشن کے حوالے سے قانونی موشگافیوں میں الجھ کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئینی تشریحات اور توضیحات کا ”ہڑ“ یا سیلاب آ گیا ہے اور ماشاء اللہ قوم کی مانند یہاں بھی بے پناہ نفاق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق ہر کوئی اپنی اپنی توضیح پیش کر رہا ہے اور صرف اپنی ہی رائے کو معتبر اور حرف ِ آخر سمجھتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی آئینی توضیحات اور تشریحات کا میلہ سجا ہے اور بیچاری نیم خواندہ قوم پریشان ہے کہ آخر آئین کی ایک شق پر اتنا اختلاف کیوں پایا جاتا ہے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم مزاجاً رنگ برنگی تشریحات اور ”نقطہ انگیزی“ کے عادی ہیں اور ہماری اس عادت نے کم از کم مذہبی میدان میں بے حد فساد پیدا کیا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہبی گروہ قرآن حکیم سے اپنی حقانیت ثابت کرتا ہے۔ بہرحال قابل فہم بات فقط اتنی سی ہے کہ جب ہمارے ہاں آئینی توضیحات کے حوالے سے اس قدر اختلاف پایا جاتا ہے تو ہمیں “آخری رہنمائی “ کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے کہ آئین کے مطابق آئین کی تشریح و توضیح سپریم کورٹ کا دائرہ کار ہے۔ پھر سپریم کورٹ ہی سے پوچھا جائے کہ حضور بتایئے آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا؟ اگر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں اس حوالے سے راہنمائی نہ ہو تو پھر الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے راہنمائی لے اور قوم کو تشریحات و توضیحات کے طوفان سے بچائے۔
کامن سینس کی بات ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا اقتدار اس لئے خطرے میں ہے کہ اُن کی اسمبلی رکنیت خطرے میں ہے اور سزا کے بعد ان کی رکنیت مشکوک ہو گئی ہے۔ کچھ ایسا ہی مخمصہ اس وقت پیش آیا جب اسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں والے اراکین دریافت ہوئے۔ اس وقت ہمارے قانون دانوں اور قانون سازوں نے آئینی موشگافیوں میں پھنسنے کی بجائے مقدمات الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے جس نے انہیں رکنیت سے محروم کر دیا۔ وزیر اعظم بھی اسی طرح قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور انہیں توہین عدالت میں سزا ہو چکی ہے تو پھر روایت کے مطابق ان کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس جانا چاہئے۔
قانونی تشریحات اپنی جگہ لیکن آپ دنیا بھر کے قدرے مضبوط جمہوری ممالک پر نظر ڈالئے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان ممالک میں آئینی موشگافیوں کی بجائے اخلاقی قدروں پر عمل کیا گیا جس سے جمہوری نظام مضبوط ہوا۔ اگر آپ جمہوریت کی روح کا تجزیہ کریں تو اس کی روح جس قدر آئینی ہے اسی قدر اخلاقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری ممالک میں جس عوامی عہدیدار پر کوئی الزام لگتا ہے وہ فوری طور پر مستعفی ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کی خاتون صدر اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری رہائش گاہ کی مستحق ہیں لیکن انہوں نے اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ان سے بے ضابطگی ہوئی اس لئے وہ سرکاری گھر نہیں لیں گی۔ اس رویے سے ایک احتسابی روایت نے جنم لیا جس سے جمہوری قدریں مضبوط ہوئیں۔ ہمارا وزیر اعظم سزا پانے کے بعد عوامی عہدے کا اخلاقی جواز کھو چکا ہے لیکن وہ بضد ہے کہ اسے مسلم لیگ (ن) عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کرے۔ وزیر اعظم صاحب کا فرمان ہے کہ وہ صرف پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں مطلب یہ کہ سپریم کورٹ کی سزا اور اخلاقیات جائے بھاڑ میں۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی قدروں کی مضبوطی کے لئے ایثار کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور اس حکمت عملی میں انہیں اپنے سیاسی حلیفوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ گویا حکومت اقتدار کے بل بوتے پر سپریم کورٹ سے تصادم کی فضا پیدا کر رہی ہے اور تصادم کی آگ بھڑکانے میں ان کے حلیف بھی شامل ہیں۔ اس سوچ کو علم سیاست کے ماہرین پارلیمانی ڈکیٹر شپ کا نام دیتے ہیں جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ محققین کی رائے یہ بھی ہے کہ عام طور پر یہی پارلیمانی ڈکیٹر شپ اصلی ڈکٹیٹر شپ کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ حکمران زبانی دعوے کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا دل سے احترام کرتے ہیں لیکن انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کو ہوا میں اڑا کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ محض بیان بازی ہے۔ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور آئین یہ کہتا ہے کہ سزایافتہ اسمبلی کا رکن نہیں رہتا۔ گویا عملی طور پر آئین کے احترام کا دعویٰ بھی فقط بیان بازی اور نظر کا دھوکہ ہے۔ حکمران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یوں اقتدار سے چمٹے رہنا ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ جب آئینی حوالے سے مشکوک حکومت اقتدار پر قابض رہے تو اس سے نظام کمزور ہوتا ہے، ملک تعطل کا شکار ہو جاتا ہے، انتظامیہ اہم فیصلے پس پشت ڈال دیتی ہے، بین الاقوامی برادری ہاتھ کھینچ لیتی ہے اور حکومتی فیصلوں کو آئینی بنیادوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ خود سوچئے سزا یافتہ وزیر اعظم کے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اسے انتظامیہ سنجیدگی سے لے گی؟
سچی بات یہ ہے کہ میں پیپلز پارٹی کی قوت کا قائل ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ پی پی پی ایک سوچ اور رویے کا نام ہے اور اس سوچ میں مخالف یا اختلاف کرنے والے کا کوئی مقام نہیں ہوتا کیونکہ پی پی پی صرف اپنے آپ کو ”سچا“ سمجھتی ہے۔ اس سوچ پر کسی اختلافی رائے کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اسی سوچ اور رویے کی مدد سے زرداری صاحب ایوان صدر میں پہنچے ہیں اور گیلانی صاحب کرپشن کے ہزار الزامات کے باوجود جیالوں کی نظر میں ”پوتر“ ہیں۔ یہ سوچ ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے اور اگر اقتدار نہ رہے تو ملکی و قومی مفاد کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ اس سوچ کے بیج 1970ء میں بوئے گئے تھے چنانچہ 1970-71میں پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ملکی اتحاد کو قربان کر دیا تھا اور اکثریتی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کے راستے میں دیوار بن گئی تھی۔
1971ء کی اسمبلی کے اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان اور ادھر ہم اُدھر تم کا نعرہ اسی سوچ کی علامتیں تھیں۔ اگر غلام اسحاق خان کو 58(2)B اور فوج کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو پی پی پی دونوں دفعہ اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیتی کیونکہ اسے قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل تھی اس لئے جب سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا تو میں نے دوبار لکھا کہ سزا ہونے کی صورت میں وزیر اعظم اقتدار نہیں چھوڑیں گے لیکن اگر عدالت نے ایسا حکم نامہ جاری کر دیا تو صدر صاحب ایک اور قربانی کا بکرا لائیں گے جو گیلانی صاحب کے نقش قدم پر چلے گا کیونکہ تصادم اور عوامی قوت کے نام پر دوسروں کو نیچا دکھانا پی پی پی کا مزاج ہے اور اس میدان میں صدر صاحب انشاء اللہ آخری حد تک جائیں گے اسی لئے میں کہتا رہا ہوں کہ پی پی پی کی ساری سیاست دو ”میموں“ پر کھڑی ہے اوّل ’م‘ مزاحمت اور دوسرا ’م‘ مظلومیت ۔
پی پی پی کی کامیابی کا راز اس حکمت عملی میں ہے کہ وہ جب اقتدار میں ہو تو ”مال غنیمت“ میں سارے کارکنوں کو شامل کرتی ہے اور مخالفین کے وجود کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ پی پی پی کو ایک ایسا قائد مل گیا ہے جو بچپن ہی سے قبضے جمانے کا فن جانتا ہے۔ جس بے نظیر کے ذریعے وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھے اس سے ان کی محبت اور سلوک پر تو محترمہ کی امریکی سہیلی ڈیفنی اپنے مشاہدات پر مشتمل کتاب لکھ چکی ہے اور آپ اس کی جھلک عظیم میاں کے ذریعے دیکھ چکے ہیں لیکن میں ان کے بچپن کے شوق کا ذکر کر رہا تھا۔ کیڈٹ کالج پیٹرو (Petaro) ایک ممتاز تعلیمی ادارہ ہے جو اپنے فوجی انداز کے نظم و ضبط کی شہرت رکھتا ہے۔
اپریل 1972 میں اس کالج کے چند طلبہ نے ایک منظم سازش کے ذریعے کالج پر قبضہ کر لیا، کالج کے پرنسپل، وائس پرنسپل، برسر (خزانچی) ، آفس سپرنٹنڈنٹ، چیف اکاؤنٹینٹ اور ٹیلی فون کمرے پر قبضہ کر لیا اور اپنے آپ کو پرنسپل خزانچی وغیرہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ طلبہ کے ساتھ بدتمیزی کی، کالج ریکارڈ میں ہیرا پھیری کی اور اساتذہ کی توہین کے مرتکب ہوئے۔ ان طلبہ کو پانچ اپریل 1972کے دن بذریعہ نوٹیفیکیشن CDT/5940/72 کالج سے نکال دیا گیا اور ان پر کالج کی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ نوٹیفیکیشن میرے سامنے رکھی ہے اور نکالے جانے والوں میں جناب آصف علی بلوچ بھی شامل ہیں۔
ماشاء اللہ اس وقت بھی انہوں نے اپنے لئے خزانچی کے عہدے کا انتخاب کیا تھا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اس سے زیادہ اور کیا کہوں، ساری بات تو بین السطور کہہ دی ہے۔