وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کیس میں سزا ہونے کے بعد ملک میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ بعض لوگ اسے سیاسی بحران کا نام دے رہے ہیں اور کچھ لوگ اسے آئینی بحران سے تعبیر کررہے ہیں کیونکہ وزیراعظم نے اس فیصلے کے بعد مستعفی ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے پورے ملک میں مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور اندازے قائم کئے جارہے ہیں۔ اپنی اپنی دانش اور معلومات کے مطابق لوگ مختلف پیش گوئیاں کررہے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا تھوڑا بہت ادراک رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ رہا کہ فوج مداخلت کرے گی۔ یہ ایک بڑی کیفیتی تبدیلی ہے جو پاکستان میں رونما ہوچکی ہے۔
اس سے پہلے جب بھی جمہوری حکومتوں کے دور میں کوئی ایسا بحران پیدا ہوتا تھا، لوگ آنکھیں بند کرکے فوج کے اقتدار پر قبضے کی پیش گوئی کرتے تھے۔ اسے پاکستان کا مقدر تصور کیا جاتا تھا۔ پیر پگارا ہفتم مرحوم سید شاہ مردان شاہ تو بحران سے پہلے فوج کے آنے کی خبر دیتے تھے، جب کوئی اس حوالے سے سوچ بھی نہیں رہا ہوتا تھا۔ جب بحران پیدا ہوتا تھا تو لوگ مکمل یقین کے ساتھ فوج کی آمد کا انتظار کرنے لگتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ماضی میں فوج کی مداخلت کیلئے بحرانوں کو جنم دیا جاتا تھا تو غلط نہیں ہوگا۔ جمہوری حکومتوں کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا اور ایک تلوار مسلسل ان کے سر پر لٹکتی رہتی تھی۔ ہزار کوششوں اور احتیاط کے باوجود جمہوری حکومتیں فوج کی مداخلت کا ”جواز“ فراہم کرنے سے نہیں بچ سکتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ بحران میں لوگ وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ فوج مداخلت نہیں کرے گی۔
اس کا کریڈٹ یقینی طور پر پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جاتا ہے۔ یہ کریڈٹ ویسے تو انہیں پوری دنیا دیتی ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا مکمل موقع فراہم کیا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں آرمی چیف کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ کے رکن جناب جسٹس خلجی عارف حسین نے جب یہ کہا کہ الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے 14 کروڑ روپے استعمال کئے گئے۔ کیا یہ ایسا کام نہیں کہ جس پر فوج شرمندہ ہو؟ تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت کو اس کیس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ملک میں چار سال سے جمہوریت ہے۔ جنرل کیانی بیٹھے ہیں، کیا جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا؟ 2 مئی سمیت کئی بحران آئے۔ اس بات کا کریڈٹ جنرل کیانی کو دیا جانا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف لڑائی بھی لڑ رہی ہے۔ ہر آفت میں بھی فوج مدد کیلئے آتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ ان ریمارکس سے لوگ اختلاف کرسکتے ہیں یا کرتے بھی ہیں مگر جنرل کیانی کے بارے میں چیف جسٹس کے ریمارکس کی ملک میں وسیع تر تائید پائی جاتی ہے۔ ماضی کے خوفناک تجربات کے باوجود پاکستان کے لوگوں کی اجتماعی دانش اس بات کی قائل ہوچکی ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور کچھ لوگ تو باالفاظ دیگر جناب چیف جسٹس کے اس موقف سے متفق ہیں کہ جنرل کیانی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور ان کے ہوتے ہوئے فوج اقتدار پر قبضہ نہیں کرے گی اور ان کی وجہ سے ملک میں چار سال سے جمہوریت ہے کیونکہ جنرل کیانی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس پر فوج شرمندہ ہو۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ کہیں اور سے ہوسکتا ہے، فوج سے نہیں۔
فوجی جرنیلوں کی ستائش میں بات کرنے اور قلم اٹھانے کو ہمیشہ برا تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس تصور کو تبدیل کردیا ہے۔ اب فوجی جرنیلوں اور فوج کے خلاف بات کرنے اور لکھنے والوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ آج کل کچھ لوگ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی وجہ سے آرمی چیف اور فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے بھی مہربان ہیں، جو ٹی وی چینلز پر سرعام فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے اکساتے ہیں یا اپنی تحریروں میں فوج کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے فوری طور پر مداخلت نہ کی تو ملک کی ”تباہی وبربادی“ کی ذمہ دار وہی ہوگی۔ یہ اسی قبیلے کے لوگ ہیں جو ماضی میں فوج کی مداخلت پر ستائش میں رطب اللسان ہوتے تھے یا اپنا قلم توڑ دیتے تھے۔ یہ لوگ پہلے اقتدار پر قبضے کے خواہشمند جرنیلوں کی تعریف کے پل باندھتے تھے، اب مداخلت نہ کرنے والے جرنیلوں پر تنقید کی بوچھاڑ کررہے ہیں۔ پہلے بھی اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان فوجی جرنیلوں کے اقدامات کو نہ صرف جائز قرار دیتے تھے بلکہ ان کی تعریفیں بھی کرتے تھے۔ اب صورتحال اس لئے تبدیل ہے کہ جج صاحبان سیاسی و جمہوری عمل میں مداخلت نہ کرنے پر فوجی جرنیلوں کی ستائش کررہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عالمی اور ملکی حالات ایسے نہیں ہیں کہ فوج مداخلت کرے لیکن یہ مفروضہ ایسا ہے جسے ہم خوش فہمی میں ایک سچ مان لیتے ہیں اور اسے آمرانہ قوتوں کی پسپائی سے تعبیر کرکے اطمینان محسوس کرتے ہیں لیکن معروضی حقائق کچھ اور ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کی مسلح افواج کو کمزور کرنا چاہتے تھے لیکن وہ پاکستان میں جمہوریت کے بھی حامی نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ روئے زمین کی پہلی اسلامی جوہری ریاست اور جنوبی ایشیاء کے سب سے زیادہ اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ملک پاکستان اور اس کی فوج کو کمزور کرنے کا واحد راستہ پاکستان میں غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتیں ہیں۔ فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی سب سے زیادہ حمایت کریں گے۔ یہ جنرل کیانی ہیں جنہوں نے فوج کو سیاست سے الگ کیا ہوا ہے۔ ماضی میں جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوجی آمروں نے اقتدار پر قبضے کے جو جو بھی جواز بنائے وہ سارے جواز موجود ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ جواز موجود ہیں۔ اس طرح کی لڑائی پہلے کبھی نہیں لڑی گئی۔ اپنی ہی سرزمین پر فوج جنگ لڑرہی ہے۔ یہ ریاستی اور سیاسی امور میں مداخلت کا سب سے بڑا جواز ہے، جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پاکستان میں مسلسل دو سالوں تک تباہ کن سیلاب آئے۔ پاکستان کے وسیع تر علاقوں میں فوج نے امدادی کارروائیاں کیں لیکن اس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سیاستدانوں، دانشوروں، تبصرہ نگاروں اور اہل رائے طبقہ نے بھی کھلے عام فوج کو مداخلت کی دعوت دی لیکن سب مایوس ہوئے۔ اس کا کریڈٹ واقعتاً جنرل کیانی کو جاتا ہے۔ حالیہ بحران سے بھی ملک خود نکل جائے گا اور لوگوں کا یقین مزید پختہ ہوگا کہ فوج مداخلت نہیں کرے گی۔