پروفیسرسحر انصاری نے کہا کہ ”بزم غالب“ کی یہ خوب صورت تقریب اس لئے زیادہ اہم ہوگئی ہے کہ آج شہر کی فضا میں جو تھوڑی دیر پہلے قائم ہوئی تھی، اب ہر طرف زندگی ہی زندگی اور روشنی ہی روشنی ہے اس کے لئے انجمن ترقی اردو پاکستان اور ”ہمارا کراچی فاؤنڈیشن“ کے ساتھ میں ذاتی طور پر بلدیہ عظمیٰ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ غالب کی شخصیت کے کئی دائرے ہیں۔ حیات و کائنات اور تصوف و اخلاقیات کا وہ کون سا موضوع ہے جس پر غالب نے اپنے شاعرانہ موقف کے ذریعے روشنی نہ ڈالی ہو۔ غالب کے بعد بھی اردو شعراء و ادباء کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن غالب کے فکری تعمیل میں ڈاکٹر علامہ اقبال اہم ترین ہیں۔ غالب نے غزل کی طرح خط کو بھی ایک ادبی مشغلہ بنالیا تھا، ان کا اسلوب نگارش ہی اس کو علمی نثر بنادیتا ہے، انداز ان کا ایسا دلکش ہے کہ نثر میں زندگی کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ کینیڈا سے آئے ہوئے مہمان شاعر و ادیب ضیاالدین احمد نے کہا کہ غالب ایک ترقی پسند مسلم تھے۔ ان کی شخصیت یونیورسل ہے۔ ان کی شاعری میں بے شمار رنگ اور میٹھا پن ملتا ہے۔ وہ بتارہے تھے کہ انگریزی زبان ساری دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ میں گزشتہ23 برس سے کینیڈا میں مقیم ہوں۔ ہماری نسل جو وہاں پرورش پارہی ہے وہ ہمارے زبان و ادب سے واقف نہیں، اس لئے میں نے اپنی نوجوان نسل کے لئے غالب کی شاعری کا انگریزی میں آسان ترجمہ کیا ہے کہ وہ بھی مرزا غالب کی شاعری کا مزہ محسوس کریں۔ انہوں نے غالب کے مشہور شعروں کا انگریزی ترجمہ بھی سنایا جسے بہت سراہا گیا۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے مضمون میں بتایا کہ غالب کے بارے میں کوئی نئی بات کرنا مشکل ہی۔ وہ شارع عام کے آدمی تھے انہوں نے لسانی لغت اور قواعد کے سلسلے میں بھی اجتہاد سے کام لیا ہے۔ یقیناً غالب کے اشعار میں بعض لفظوں کا وہ مفہوم نہیں جو تاریخ کی کئی منزلوں سے گزرنے کے بعد آج تک ہمارے ذہنوں پر غالب تھا۔ انہوں نے غالب کی لغت نویسی‘ قواعد اور املا کے حوالے سے گفتگو کی۔ پروفیسر شاہدہ حسن نے غالب کو ”ترقی پسند“ قرار دیتے ہوئے غالب کی ادبی واسلوبیاتی خصوصیات کی تعریف کی اور اس کے مواد پر اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب وجدان کے شاعر تھے، اپنی شخصیت اور ذہن کے اعتبار سے وہ آزاد خیال تھے ان کا فکری نظام استفسار پر منبی تھا۔ ان کی شاعری میں آنے والے لمحوں کی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ آج ان کے انتقال کو142 برس گزر چکے ہیں مگر ان کی شخصیت نئے آنے والے زمانوں کے خدوخال کو نمایاں کررہی ہے۔ 72 برس کی مجموعی عمر میں لکھنے لکھانے کا شغل جاری رہا۔ ساٹھ برس تک انہوں نے جو لکھا عہد حاضر تک ہمارے اہل قلم نے ان گنت زاویوں سے لکھا ہے۔ وہ ایک ہوشمند انسان کی طرح خواہشوں میں گھرے رہتے تھے، انہوں نے دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی بھی ہنسی اڑائی۔ انجمن کے نائب معتمد اعزازی اظفر رضوی نے سب سے پہلے غالب کے مذاکرے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ان کے فکر وفن پر گفتگو کی غرض وغایت بیان کی اور کہا کہ عالی صاحب کے خصوصی اصرار پر انجمن نابغہٴ روزگار ادیبوں‘ شاعروں اور نقادوں پر گفتگو کے اس سلسلے کو جاری و ساری رکھے گی۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سید نے اس عالی شان اور پروقار تقریب کی سرپرستی کی بلکہ ہر ماہ ایسے ہی دیگر مشاہیر کی تقریبات میں بھی اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزل کے افق پر غالب مہرتاباں ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو صرف اپنے دور اور زمانے تک محدود نہیں کیا بلکہ اس میں وہ وسعتیں اور گہرائیاں دی دیں کہ ان کی شاعری ہر دور میں مرکز نگاہ بنی رہی اور آج بھی اس کے نئے نئے امکانات تلاش کئے جارہے ہیں اور مستقبل میں بھی تلاش کئے جائیں گے۔ غالب نے اپنی حیات مستعار سے حاصل شدہ تجربات، مشاہدات اور اسباق کو چراغ منزل بناکر پیش کیا جو ہر کس و ناکس کی رہنمائی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ غالب کی شخصیت اور شاعری دونوں مرکز نگاہ بننے کے قابل ہیں۔ غالب نے یوں تو اصل شاعری فارسی میں کی اور اردو میں شاعری کو انہوں نے ضمنی حیثیت دی، لیکن یہ حیران کن بات ہے کہ انہیں شہرت لازوال اردو شاعری کی بدولت ملی۔ تقریب کے دوسرے سیشن میں ملک کے نامور غزل گائیک غلام عباس اور رینا عرفان نے غالب کی مشہور غزلیں سنا کر ایک سماں باندھ دیا اور یوں رات گئے تک یہ خوب صورت محفل جاری رہی۔ تقریب کے آخر میں محمد ریحان خان ڈائریکٹر کلچر اسپورٹس اینڈ ریکریشن بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تمام مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔