نہ پیپلزپارٹی کا ضمیر اس مٹی سے اٹھا ہے اور نہ سید زادہ ملتان کے خاکستر میں وہ چنگاری ہے کہ ذاتیات، سیاسیات اور مفادات سے بالاتر ہوکر قوم و ملک کے مفاد میں کسی دانشمندانہ فیصلے کی توقع کی جائے۔ میں نے تو یہ منظرنامہ کئی ماہ پہلے رقم کر دیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر سزا سنادی تو عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا جائے گا جو عدلیہ کے باقی فیصلوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ چار سال پر محیط توہین و تضحیک کے کھلے رویے پر مبنی باغیانہ سوچ یکایک تہذیب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ عدلیہ کے ہر فیصلے کو روند ڈالنے والے حکمران، عدلیہ کے اس فیصلے کے سامنے کیسے جھک جائیں گے جس کی زد خود ان کی ذات پر پڑ رہی ہو۔ زندہ معاشروں میں اخلاقیات (Morality) کا حوالہ بڑا مستند ہوتا ہے۔ اخلاقیات کا بیج حساس ضمیر کی شاداب کھیتی سے پھوٹتا ہے جب انسان کسی اصول، کسی نظریے، کسی مقصد اولٰی، کسی آدرش یا محض آبرومندی کے لئے عہدہ و منصب کو ٹھکرا کر دور جاکھڑا ہوتا ہے۔ ایسے بیج ان زمینوں میں نہیں اگا کرتے جنہیں کرپشن کی سیم چاٹ رہی ہو یا جنہیں ذاتی مفادات کا کلر کھا رہا ہو۔ عہدہ و منصب ہی کو اپنا اعزاز و افتخار سمجھنے اور اسے مقصد حیات بنا کر، ہر قیمت پر ان سے چمٹے رہنے والوں کے پاس ایسا کچھ ہوتا ہی نہیں کہ وہ امتحان کی کسی خاص گھڑی میں پورے قد سے کھڑے ہوسکیں۔ سو مجھ سمیت، وہ سب لوگ پرلے درجے کے فریب کا شکار ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ سید زادہ ملتان، آئین کی موشگافیوں اور قانون کی نزاکتوں کا سہارا لئے بغیر اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیں۔ ایسا وہی کرسکتا ہے جس کے دامن میں کوئی چھید نہ ہو جس کے ماتھے پہ کوئی داغ نہ ہو، جس کے کندھوں پر کوئی بوجھ نہ ہو، جس کے اہل و عیال کے کردار و عمل میں کوئی جھول نہ ہو، جسے محاسبے کا بال برابر خوف نہ ہو، جو کسی شام اپنے کپڑے صندوق میں ڈال کر گھر چلا جائے۔ جو لوگ اپنی کرسی کو اپنی بدعنوانیوں کی آماجگاہ بنالیتے ہیں، وہ اسی کرسی کو اپنی پناہ گاہ بھی خیال کرتے ہیں۔ ان کے لئے معاملہ اتنا سادہ و معصوم نہیں ہوتا کہ چند سطری استعفٰے لکھ کر گھر چلے جائیں اور اس اطمینان کی چادر تان کر سوجائیں کہ بے لاگ اور تند خو احتساب بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے شب و روز اقتدار کا ہر لمحہ بدعنوانی میں لت پت ہے۔ انہیں خبر ہوتی ہے کہ ان کے ہونہار سپوت کیا کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کرسی چھوڑنے کے بعد وہ نیب یا ایف۔آئی۔اے کے اہلکاروں سے گلی ڈنڈا نہیں کھیل سکیں گے، انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دیانتدار تفتیش کاروں کا ناطقہ بند نہیں کرسکیں گے اور انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ اقتدار کے قلعے سے باہر آتے ہی ان کا نامہ اعمال ان کے لئے ایسا وبال بن جائے گا کہ انہیں منہ چھپانے کو رومال بھر کپڑا بھی نہیں ملے گا۔ سو اپنی بداعمالیوں کی زنجیر انہیں اپنی کرسیوں سے باندھے رکھتی ہے۔ ”اخلاقیات“ کو وہ پرانی اترن کی طرح اپنے محل کے کسی سرونٹ کوارٹر کی طرف اچھال دیتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی کے مقدر کا ستارہ بھی لیاقت باغ کی بغلی سڑک پہ بکھرے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو سے طلوع ہوا۔ یہ سانحہ نہ ہوتا تو ان کی کرسی پر محترمہ بیٹھی ہوتیں۔ صدر آصف زرداری، جیسا کہ محترمہ نے اشارہ دیا تھا، غالباً دبئی میں بچوں کی نگہداشت کررہے ہوتے۔ محترمہ کے قتل نے سارا منظرنامہ تبدیل کردیا۔ اس کہانی کو دہرانے سے کچھ حاصل نہیں۔ حقیقت اس قدر ہے کہ بطور وزیر اعظم وہ چار سال ایک ماہ سے زائد کا وقت گزار چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف ہماری قومی تاریخ کے مقبول ترین راہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم کی حیثیت سے صرف تین سال، دس ماہ، اکیس دن ملے، بے نظیر کو پہلی بار ایک سال آٹھ ماہ چار دن اور دوسری بار تین سال ایک ماہ سولہ دن میسر آئے۔ نوارشریف کا پہلا دور دو سال پانچ ماہ بارہ دن اور دوسرا دور دو سال سات ماہ پچیس دن پر مشتمل تھا۔ سید زادہ ملتان سب کا ریکارڈ مات کرچکے ہیں حالانکہ سیاسی قد و قامت کے اعتبار سے ان راہنماؤں کے سامنے ان کا شمار ”بونوں“ میں ہوگا۔ اس کے باوجود اپوزیشن یا کسی بھی دوسری طاقت نے ان کے عہدے کو نہیں للکارا۔ انہیں منصب سے الگ کرنے کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی۔ ان کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد کا اشارہ تک نہیں دیا۔ ہوا تو صرف یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بصد صبر و تحمل، کئی مواقع دینے اور عوامی تنقید کے تیر کھانے کے بعد، توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر سزا سنائی۔ سزا پر عمل ہوگیا۔ عدالت نے سزا یافتہ مجرم کی رہائی کا پروانہ جاری کیا اور وہ فتح کا نشان بناتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس آبیٹھا۔
عدالتی حکم کی ایک سے زیادہ تاویلیں ممکن ہیں۔ اس فیصلے کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر اختلاف رائے ممکن ہے۔ آئینی ماہرین کی تشریحات و توضیحات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن سید زادہ ملتان صرف اس نکتے کی وضاحت فرمائیں کہ کیا وہ ایک ”سزا یافتہ مجرم“ ہیں یا نہیں؟ کیا عدالت نے ان کے بارے میں "CONVICTED" کا لفظ استعمال کیا ہے یا نہیں؟ کیا چوہدری اعتزاز احسن سمیت پیپلزپارٹی کا کوئی آئینی جادوگر یا سیاسی بازیگر اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز شخص ایک ”سزا یافتہ مجرم“ ہے؟ کیا دنیا بھر کی تاریخ سے کوئی ایسی مثال لائی جاسکتی ہے کہ عدالت کی طرف سے ایک مکروہ جرم کی سزا پانے، سزا بھگت لینے اور باضابطہ طور پر ”سزا یافتہ مجرم“ کا تمغہ سینے پر سجالینے کے بعد بھی کوئی شخص سربراہ حکومت کے طور پر قائم رہتا ہے؟ ”نظیروں“ کے شہنشاہ اعتزاز احسن کوئی ایسی نظیر لاسکیں تو شاید بہت سے لوگوں کی بے کلی کو قرار آجائے۔
سید زادہ ملتان کو فخر ہے کہ انہیں سزا پانے کے بعد ”مبارک باد“ کے اتنے پیغامات ملے ہیں جتنے وزیر اعظم بننے پر بھی نہیں ملے تھے۔ مجھے سید زادہ کے اس ارشاد عالیہ کے ساتھ منسلک ایک ٹیکسٹ میسج ملا۔ ”بلاشبہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے“۔ لازم ہے کہ سزا یافتہ وزیر اعظم، دفتر خارجہ کے ذریعے تمام عالمی لیڈروں کو خطوط لکھوا کر اپنے حالیہ اعزاز و اکرام سے انہیں آگاہ کریں تاکہ دنیا بھر کے وزرائے اعظم اور صدور بھی انہیں مبارک باد کے پیغامات بھیج سکیں۔ سید گیلانی کو اپنے دائیں بائیں دیکھ لینا چاہئے کہ کیا یہ وہی لوگ نہیں جنہوں نے عدلیہ پر یلغار، چیف جسٹس کی توہین آمیز معزولی اور جج صاحبان کی گھروں میں نظربندی پر، پرویز مشرف کو بھی ہدیہ تبریک پیش کیا تھا؟ ایک وہ جنہوں نے 12/مئی کو چیف جسٹس کی آمد پر کراچی کو قتل گاہ میں بدل دیا تھا اور دوسرے وہ جنہوں نے اسی شام اسلام آباد میں جشن فتح بپا کرکے مشرف کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
سید زادہ ملتان اپنے اعصاب پر گرفت کھوچکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی تقریر حو اس باختگی کا انتہائی بے ذوق تماشا تھی۔ وہ معاملے کو سیاسی رنگ دے کر بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہیں پٹی پڑھادی گئی ہے کہ اسپیکر صاحبہ عدالت عظمٰی سے بھی بڑی جج ہیں اور وہ اس فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتی ہیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ اس لئے کہ معاملہ کسی اصول، نظریے اور آدرش کا نہیں، محض چھ کروڑ ڈالر کا ہے اور جن اٹھارہ کروڑ عوام کو اپنی ڈھال بنایا جارہا ہے، یہ پیسہ ان کا ہے۔ پی۔پی۔پی نے خودکش جیکٹ پہن لی ہے۔ اس کی آرزو یہ ہے کہ جس لمحے اس کے پرزے اڑیں اسی آن جمہوری نظام کے پرخچے بھی اڑ جائیں۔ بانس نہیں رہتا تو کوئی اور بانسری کیوں بجاتا رہے۔ ہمارے اقتدار کا بانس نہیں تو پھر جمہوریت کی بانسری بھی کیوں؟