آئیے آج ایک سنجیدہ مگر کبھی نہ کبھی متوقع واقعہ یا خطرہ کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں ۔ جہاں تک عوام کی یادداشت کام کرتی ہے یا تاریخ بتاتی ہے دنیا کے تقریباً تمام ہی علاقوں، ملکوں اور نسلوں میں کسی نہ کسی وجہ سے جنگیں ہوئی ہیں، قتل عام ہوا ہے اور مقتولوں کو اجتماعی قبروں میں دبا دیا گیا ہے۔ لفظ دفن زیادہ تہذیب یافتہ ہے اور ایسے معاملات میں تہذیب کا دور دور تک فقدان تھا۔
اجتماعی قبریں عموماً دو ہی اسباب کی وجہ سے ظہور پریز ہوتی ہیں ایک تو آسمانی آفت اور عذاب اِلٰہی کی وجہ سے جیسے زلزلے، سیلاب وغیرہ جیسا کہ ہمارے یہاں کشمیر کے 2005 ء کے زلزلے اور ملک کے دوسرے صوبوں میں 2008 ء کے سیلاب کی وجہ سے لاکھوں اموات ہوئیں اور ہلاک شدگان کو انفرادی طور پر دفنانا ناممکن تھا اوراکثر و بیشتر ان کو اکٹھا ہی دفنا دیا گیا تھا اور دوسرا سبب ملکوں کے درمیان تباہ کن جنگیں یا ایک ہی ملک میں مختلف نسلوں یا فرقوں میں جنگ یا حکومت کی جانب سے کسی ایک فرقہ کی نسل کشی۔ ماضی قریب میں ہم نے زلزلے اور سونامی (زلزلے سے پیدا ہونے والی تباہ کن لہریں) سے پیدا ہونے والی تباہی دیکھی تھی تقریباً ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پیشتر اَغادیر اور اسکوپیا کے زلزلوں کی تباہ کاریاں بھی ابھی تک یاد ہیں۔ اس قدر تعداد میں ہلاک ہونے والوں کو انفرادی طور پر دفنانا ممکن نہیں تھا اور ہلاک شدہ افراد کو اجتماعی طور پر دفنانا پڑا تھا۔
اب انسان کی خود پیدا کردہ حرکات کو دیکھئے ماضی قریب میں دوسری جنگ عظیم کے واقعات ہیں۔ اَوّل تو ہٹلر کی بہیمانہ طور پر یہودیوں کو جن میں اکثریت بالکل بے گناہوں کی تھی اجتماعی طور پر گیس چیمبرز میں قتل کردیا گیا اور لاکھوں مُردوں کو اجتماعی طور پر گڑھوں میں ڈال کر مٹی ڈال کر دبا دیا گیا یا بھٹیوں میں جلا دیا تھا۔ اسی طرح کے واقعات لینن گراڈ کے محاصرے کے دوران پیش آئے جب جرمنوں کے محاصرہ کی وجہ سے لاکھوں عوام غذا کی نایابی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، جاپان پر ایٹم بموں کی بوچھاڑ سے بھی لاکھوں افراد ہلاک ہوئے تو ان کو بھی اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ تقریباً 70سال پیشتر قحط سالی نے بھی یہی مناظر دکھائے تھے۔ ابھی بمشکل 20 سال پیشتر سربوں کی بہیمانہ کارروائی کے نتیجہ میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد قتل ہوئے اورلاتعداد لوگوں کو سربوں نے قتل کرکے اجتماعی قبروں (گھڑھوں) میں ڈال کر ڈھانک دیا تھا۔ دو اور بھیانک جنگیں لائبیریا اور روانڈا، برونڈی میں لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب بنیں اور بے چارے ہلاک شدہ لوگوں کو انفرادی قبر نصیب نہ ہوئی۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں یہ پرانے مردے کیوں اُکھاڑنے بیٹھ گیا۔ میں اب اس کی طرف آتا ہوں میں آپ کی توجہ روس، فرانس اور چین اور ایران کے انقلابات کی مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ یہ انقلابات اس لئے آئے کہ وہاں کے حکمراں اور ادارے آمر بن گئے، عوام کوزندہ رہنا دوبھر ہوگیا تھا، حکمران اور افواج شاہانہ عیاشیوں میں مصروف تھے اور عوام کو تین وقت کا تو کیا ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ تھانہ ہی سر چھانے کی جگہ تھی مختصراً نہ روٹی، نہ کپڑا اور نہ مکان اورنہ دوا میسر تھی۔ آپ ایک حد تک ظلم و ستم وتکالیف برداشت کرسکتے ہیں اور یہ مثالیں جو میں نے دی ہیں وہاں کے عوام جب حَدِّ برداشت تک پہنچ گئے تو انہوں نے حکمرانوں اور ان کے آلہ کار اداروں کے کارندوں کا جو حشر کیا وہ دنیا کی تاریخ کے عبرتناک ابواب ہیں۔ فرانس، روس، چین اور ایران میں (اور کسی حد تک سابقہ عراق میں) عوام کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا گیا تھا، انسان تو کیا جانور بھی ضرورت سے زیادہ ظلم برداشت نہیں کرتا اور رَدِّعمل کا اظہار کردیتا ہے۔ اس قسم کا رَدِّعمل اور واقعات عموماً ان قوموں میں ہوتے ہیں جو غیرت مند ہوتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس کا فقدان ہے۔ میں پچھلے چند سال سے نہایت سنجیدگی سے غور کررہا ہوں کہ یہ بے غیرتی، بے حسی کی لعنت ہماری قوم میں، خاص کر حکمرانوں اورا ہل اقتدار اور اہل استعداد میں کس طرح سرایت کرگئی ہے اور ان سے زیادہ عوام کی اکثریت بھی اس سے بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام نشہ آور دواؤں کے عادی ہوگئے ہیں اور ہر غلط کام، ہر غلط حکم ماننے میں عار نہیں سمجھتے۔ لیکن آپ کو ایک مثال دونگا، آپ نے دیکھا کہ بجلی کے کرنٹ والی چھڑی سے انسان شیر کو بھی بلّی بنا لیتا ہے لیکن ایک نہ ایک دن شیر کے صبر کا پیمانہ چھلک جاتا ہے اور چند سیکنڈ میں وہ اپنے ٹرینر کو گوشت و ہڈیوں کے بے جان ڈھیر میں تبدیل کردیتا ہے۔ موجودہ عوامی حالت کو دیکھ کر علامہ اقبال  کا شعر یاد آرہا ہے ان سے معذرت سے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔
لو! یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی اس قوم کے دل سے
جس طرح میں نے شیر کا واقعہ بیان کیا ہے اسی طرح میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک ماہر تیراک کبھی نہیں سوچتا کہ وہ ڈوب کر مرسکتا ہے اور عموماً اس کی موت پانی میں ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک کار ریس ڈرائیور کبھی تصور نہیں کرتا کہ وہ ایکسیڈنٹ سے مرے گا اور آپ کو لاتعداد واقعات ملیں گے کہ وہ کار کی ریس یا تیز رفتاری سے ہی مرا۔ اس وقت ہمارے حکمراں اس نشہ میں ہیں کہ اُنھیں کچھ نہ ہوگا، انھوں نے عوام کو بکری بنا لیا ہے اور آرمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ خدائی فوجدار ہیں ان کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایوب خان، بھٹو، نواز شریف، بینظیر اور مشرف کا غرور اللہ تعالیٰ نے خاک میں ملا دیا تھا۔ ماضی قریب کی تین مثالیں قابل غور ہیں۔ ایران، لیبیا، عراق۔ ان تینوں ممالک کے حکمراں خود کو فرعون سے بھی زیادہ طاقتور سمجھتے تھے۔ عوام کو ہروقت خوف و دہشت میں زندگی گزارنا پڑرہی تھی۔ کسی طرح سے ان سے جان چھڑانے کی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ خاص کر ایران کا خفیہ انٹیلی جینس ادارہ savak ہماری آئی ایس آئی سے بھی زیادہ تشدّد، ظلم اور ماورائے قانون قتل غارتگری، اغوا کے لئے مشہور تھا لیکن ایک وقت آیا اور نہتے عوام نے اس جابر حکمراں اور اس کی فوج اور سواک کا جو حشر کیا وہ مقام عبرت ہے۔ ایران میںآ یت اللہ خمینی نے انقلاب کی بنیاد ڈالی اور جب عوام نے شہنشاہ اور اس کے حواریوں کا تختہ اُلٹ دیا تو شہنشاہ تو فرار ہوگیامگر دوسرے ظالم حواری نہ بھاگ سکے۔ آیت اللہ خلخالی نے ان تمام کو چند ہفتوں میں جہنم رسید کردیا، اس میں سابق وزراء اعظم، وزراء، جنرلز، انٹیلی جنس اداروں کے سرکردہ کارکن سب کو بلا خوف و خطر و امتیاز چند دن میں پھانسی دیدی گئی۔ یہی حال آپ نے ابھی لیبیا میں دیکھا۔ مصر کا ڈکٹیٹر تو چلا گیا مگر فوجی امریکی مدد سے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اور انشاء اللہ ان کا بھی جلد حساب لیا جائے گا۔ پاکستان کی طرح ترکی میں بھی فوج نے خدائی فوجداری کا کام سنبھال لیا تھا آج وہ بھی سب جیل میں ہیں یا بھیجے جانے والے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے روزنامہ نیوز میں ایک چونکا دینے والا مضمون اسی جانب اشارہ کررہا تھا۔ اس میں اس خطرہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ ممکن ہے کہ عوام حکمرانوں کے خلاف اُٹھتے ہوئے فوج کے خلاف بھی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ میں نے اس کالم کے شروع میں ان ہی خطرات کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس ملک میں عوام کے پاس کئی کروڑ مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ان کو اچھی طرح استعمال بھی کرنا جانتے ہیں۔ ملک میں آبادی کا صرف بمشکل دو فیصد حصّہ دفاعی اور قانون نافذ کرنے میں مصروف ہے اگر حالات اسی طرح بگڑتے رہے اور عوام بھوکے، ننگے، خودکشیاں کرتے کرتے قوت، صبر و برداشت کھو بیٹھے تو یہ پندرہ، بیس لاکھ مسلح افراد ایک سو اٹھارہ ملین یعنی اٹھارہ کروڑ عوام کے غیض و غضب کے شکار ہوجائینگے اور یہ شان و شوکت اور عیاشیاں و قتل و غارتگری سب نیست و نابود ہوجائینگے۔ حکمرانوں کا بھی وہی حال ہوگا۔ ان کے گلوں میں لوہے کی زنجیریں ہونگی جسطرح شاہ فیصل اور امیر عبداللہ، عراق کے حکمرانوں، کے ساتھ کیا گیا تھااور جیپ میں باندھ کر شہر کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ ہی حکمرانوں، نہ ہی دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں اور نہ ہی عدلیہ کو اس گمان میں رہنا چاہئے کہ وہ عوام کے غیض و غضب سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان تمام اداروں نے عوام کو کچھ نہیں دیا اور نہ ہی ان کی تکالیف کا اَزالہ کیا۔ سب ہی نے انہیں مایوس کیا ہے۔ میں نے اسی خطرہ کے پیش نظر اجتماعی قبر کی بات کی ہے اگر خدانخوستہ یہ وقت آگیا تو پھر اجتماعی قبروں کی ہی ضرورت پیش آئے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی لاشیں ابولہب کی طرح پڑی سڑتی رہیں اور قبر بھی میسر نہ ہو۔
اب آپ چند آیات اِلٰہی کو غور سے پڑھئے اور انجام پر غور کیجئے:
(1) اور یہ وہی عاد ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے انکار کیااور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر اور سرکش (صاحب اقتدار)کے احکامات کی تعمیل کی (اور جہنم کے مستحق ہوئے)۔ سورة ہود آیت 59 ۔ (2) اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے کا ہوتا ہے تو ہم وہاں کے اصحاب اقتدار اور امیر لوگوں کو اللہ کے احکام کی کھُلّم کھُلّانافرمانی کے راستوں پر چلنے دیتے ہیں اور وہ نافرمانیوں (گناہ) کرتے رہتے ہیں اور پھر اس بستی پر عذاب کا حکم نازل کردیتے ہیں اور ہم ان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ (سورة بنی اسرائیل آیت 16 )۔ (3) اور اسی طرح ہم نے ہر بستی (قوم) میں اس بستی کے بڑے بڑے (اصحاب اقتدار) مجرمین بنادیئے ہیں تاکہ وہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلاتے رہیں حالانکہ وہ اپنے فریب کے جال میں خود ہی پھنستے ہیں مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔سورة انعام آیت 123 ۔
سب کیلئے، بلاامتیاز، یہ انتباہ ہے اور یہ ”حادثہ“ یہاں بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ بہتر ہے کہ لوگ پہلے سے ہی اجتماعی قبروں کی جگہوں کا تعین کرلیں ورنہ ”معزز“ اَفراد کی لاشوں کی بے حرمتی ہوگی، چیل کوّے اور کتے ان کے اعضا گھسیٹتے پھریں گے۔