یوسف رضا گیلانی کے خواب ادھورے رہ گئے۔ وہ سپریم کورٹ سے سزا پاکر سیاسی شہید بننا چاہتے تھے۔ انہیں توہین عدالت کے الزام میں سزا تو ملی لیکن وہ سیاسی شہید نہ بن سکے۔ انہیں توقع تھی کہ سپریم کورٹ انہیں توہین عدالت کے الزام میں چھ ماہ نہیں تو چھ ہفتے یا کم از کم چھ دن قید کی سزا تو ضرور سنائے گی اور سزا سناتے ہی ان کی گرفتاری کا حکم بھی صادر کرے گی۔ گیلانی صاحب جیل جانے کے لئے تیار ہو کر آئے تھے۔ ان کے ضروری کپڑے اور ادویات ایک بیگ میں ڈال دئیے گئے تھے تاکہ وہ یہی بیگ اٹھا کر جیل روانہ ہوجائیں۔ سپریم کورٹ سے سزا پانے کے بعد وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کاخیال انہوں نے اپنے قریب تک نہیں آنے دیا۔ سزا کے خیال نے انہیں ایک عجیب سے احساس تفاخر میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہے تھے کہ جب وہ سزا پاکر جیل جائیں گے تو پیپلز پارٹی کہے گی کہ دیکھو ظالموں نے سب سے پہلے ہمارے شہید چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا پھر شہید چیئرمین کی بیٹی اور داماد پرجھوٹے مقدمات بنائے اور انہیں جیلوں میں بند رکھا، 15سال تک یہ مقدمات پاکستان کی کسی عدالت میں سچے ثابت نہ ہوسکے توپیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے صدر کے خلاف ان مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لئے سوئس حکومت کو خط لکھے لیکن جب وزیر اعظم نے انکار کردیا تو اس کا بھی سیاسی قتل کردیا گیا۔ گیلانی صاحب جیل جانے والے پہلے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے لیکن جب عدالت نے فیصلہ سنایا تو وہ دنگ رہ گئے۔ عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو تاریخ کا حصہ بنانے کی بجائے اپنے فیصلے کو تاریخ بنادیا۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کے برخاست ہونے تک آپ کی سزا جاری رہے گی۔ 30سیکنڈ میں عدالت برخاست ہوگئی اور پاکستان کی تاریخ کا پہلا متفقہ وزیر اعظم پاکستان کا پہلا سزا یافتہ وزیر اعظم بن چکا تھا۔ فیصلے میں کہیں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کی رکنیت سے فارغ ہوگئے ہیں یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے البتہ آئین کی دفعہ 63کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ دفعہ63کے تحت عدالت کی توہین کرنے والا پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے وکیل چودھری اعتزاز احسن نے اعلان کیا کہ ان کے موٴکل کی نااہلی کا فیصلہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہوگا اور وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے۔دوسری طرف نواز شریف اور عمران خان سمیت پیپلز پارٹی کے کئی اہم مخالفین نے مطالبہ کیا کہ یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیدیں۔
عدالت کے فیصلے کو کافی دن گزر گئے، یوسف رضا گیلانی نے سزا پانے کے بعد امریکی حکومت کے نمائندے مارک گراسمین کے ساتھ ملاقات کی جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی یا تو سمجھ نہیں آئی یا امریکہ کو اس فیصلے سے فرق نہیں پڑا۔ سزا سے اگلے دن یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی سے خطاب بھی کرڈالا۔ سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار نے قومی اسمبلی کو عدالتی فیصلے کی نقل بھیجی تو وزیر قانون فاروق نائیک نے دھمکی دی کہ ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جائے گی۔ اس کے بعد یوسف رضا گیلانی لاہور گئے جہاں انہیں وزیر اعظم کا مکمل پروٹوکول ملا اور انہوں نے گورنر ہاؤس لاہور میں اداکارہ شبنم اور ان کے شوہر روبن گھوش کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ قانونی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کہتی ہے کہ یوسف رضا گیلانی عدالت سے سزا پانے کے بعد وزیر اعظم نہیں رہے لیکن دوسری طرف کئی قابل ماہرین کہتے ہیں کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ سپیکر قومی ا سمبلی کی طرف سے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوانے کے بعد ہوگا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا پانے کے بعد یوسف رضا گیلانی مظلوم بن گئے ہیں کیونکہ وہ آئین کی دفعہ248کے تحفظ کے علمبردار بن گئے ہیں اور سپریم کورٹ248پر بالکل خاموش ہے، یہی وجہ ہے کہ جس دن گیلانی صاحب کو سزا سنائی گئی اسی دن ملتان سے پنجاب اسمبلی کی ایک خالی نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی پر گیلانی صاحب بار بار کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے تو فیصلہ میرے خلاف دیا لیکن عوام کی عدالت نے فیصلہ میرے حق میں دیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملتان کی یہ نشست روایتی طور پر مسلم لیگ(ن) جیتا کرتی تھی لیکن جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے نعرے نے پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب میں مقبولیت عطاء کی ہے اس لئے 26اپریل کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی جیت گئی۔ یہ درست ہے کہ2008ء میں مسلم لیگ(ن) کا امیدوار اس نشست سے 28ہزار ووٹ لے کر جیتا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار نے14ہزار ووٹ لئے۔2012ء میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار نے20ہزار ووٹ لئے اور پیپلز پارٹی کا امیدوار تقریباً چار سو ووٹ لے کر جیت گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں میں8ہزار کی کمی اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں میں 6ہزار کا اضافہ ہوا لیکن کیا اس کی وجہ محض یوسف رضا گیلانی کو ملنے والی سزا تھی؟
پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہئے کہ ملتان کے ضمنی الیکشن کے نتیجے کو محض اپنی مرضی کے معنی نہ دے۔ ملتان میں مسلم لیگ(ن) کی شکست کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بار بار سیاسی وفاداریاں بدلنے والے ایک بدنام شخص کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ دیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کا امیدوار پچھلے چند ماہ سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان چھلانگیں لگا رہا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے یہاں اپنے پرانے اور وفاردار کارکنوں کو نظر انداز کرکے ایک بڑے جاگیردارخاندان کے چشم و چراغ کو ٹکٹ دیدیا جبکہ پیپلز پارٹی نے ا پنے ایک پرانے کارکن کو ٹکٹ دیا۔ شاید اس لئے کہ پیپلز پارٹی میں شامل جاگیرداروں کو اس نشست سے جیتنے کی توقع نہ تھی۔ پیپلز پارٹی کی کسی بڑی شخصیت یا وزیر نے اپنے اس کارکن کے حق میں کوئی جلسہ کرنے کی زحمت بھی نہ کی۔ مسلم لیگ (ن) کے پرانے کارکن ایک لوٹے کی نفرت میں گھروں سے نہیں نکلے اور پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے ایک پرانے ساتھی کی محبت میں لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر ووٹ ڈلواتے رہے۔ جاوید ہاشمی صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ نشست جس ایم پی اے نے خالی کی وہ ان کے ساتھ تحریک انصاف میں شامل ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف نے ا لیکشن میں حصہ نہیں لیا بلکہ تحریک انصاف کے کچھ مقامی حامیوں نے مسلم لیگ(ن) کی مخالفت میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کا ساتھ دیا اور اسے کامیاب کرادیا۔ جاوید ہاشمی صاحب کو یقین ہے کہ آئندہ جنرل الیکشن میں یہ نشست تحریک انصاف کے پاس ہوگی۔ ملتان میں مسلم لیگ (ن)کی شکست میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لئے ایک سبق ہے۔ سیاسی کارکن اپنی قیادت کے ذہنی غلام بننے کو تیار نہیں۔ کسی بھی جماعت کی قیادت نے اپنے وفادار کارکنوں کو نظر انداز کرکے کسی امیر آدمی کو ٹکٹ دیا تو پارٹی کارکن ایسے امیروں کے لئے پورس کے ہاتھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ ملتان کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی دراصل ایک محنتی اور وفادار سیاسی کارکن کی کامیابی ہے لیکن ٹائمنگ کی وجہ سے اس کامیابی کا کریڈٹ یوسف رضا گیلانی لینا چاہئیں تو انہیں ہم نہیں روک سکتے۔ گیلانی صاحب ملتان کو چھوڑیں اور لیاری کی فکر کریں جس دن سے انہیں سپریم کورٹ نے سزا سنائی ہے اس دن سے لیاری میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو1970ء سے پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے دور حکومت میں لیاری کے مکینوں کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ پیپلز پارٹی مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری کو لیاری سے الیکشن لڑانا چاہتی ہے لیکن موجودہ صورتحال نے پیپلز پارٹی کے لئے لیاری میں بہت مشکلات پیدا کردی ہیں۔وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی محاذ آرائی میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی اتحاد اپنی جگہ قائم و دائم ہے جبکہ حکومت کے مخالفین آپس میں تقسیم ہیں۔ بکھرے ہوئے مخالفین کو سیاسی شکست سے دوچار کرنا آسان ہے اسی لئے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ان کے وزیر داخلہ اور وزیر قانون کے رویے میں بھی جارحیت بڑھ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)میثاق جمہوریت کو بھول چکے اور اب ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہماری سیاست دراصل ضد اور انا کی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے۔ ضد کے بادشاہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے، اقتدار کسی صورت نواز شریف کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا، سیاسی لڑائی کو اتنا بڑھایا جائے گا کہ پورا ملک لیاری بن جائے گا اور پھر ملک بچانے کے لئے ایک دفعہ پھر آئین اور جمہوریت کی قربانی دی جائے گی۔ اتنی بڑی قربانی سے بہتر ہے کہ ضد اور انا کی جنگ کو ختم کرکے سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعہ وزیر اعظم کی نااہلی پر اتفاق کرلیا جائے۔ آج نہیں تو کل یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ چھوڑنی ہے۔ مخالفین ضد چھوڑدیں گیلانی وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں اسی میں سب کا بھلا ہے۔