اصولی طور پر سرائیکی صوبے کے حق میں ہونے کے باوجود راقم کو موجودہ حکومت میں یہ صوبہ بنتا نظر نہیں آ رہا اور وہ اسے پیپلز پارٹی کا محض انتخابی ایشو سمجھتا ہے۔ کوئی چاہے تو اسے نا چیز کی کوتاہ عملی سے تعبیر کر سکتا ہے کہ انسان دستیاب معلومات کی بنیاد پر ہی رائے قائم کرتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ ہر دل عزیز تاج حیدر کے مجوزہ سرائیکی نقشے میں پنجاب کے علاوہ خیبر پختون خوا کے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک و بنوں اور بلوچستان کے رکنی و بارکھان وغیرہ کو شامل دکھایا گیا ہے۔ اب یہ ضروری ہے کہ تینوں صوبے یہ علاقے سرائیکی صوبے کے حوالے کرنے سے متعلق دو تہائی ووٹوں سے اپنی اپنی اسمبلیوں سے قرارداد منظور کرا لیں۔ صوبوں کو اگر بالفرض محال بائی پاس بھی کر لیا جائے تو کیا سینیٹ و قومی اسمبلی سے درکار دو تہائی ووٹ میسّر آ سکیں گے؟ اس سلسلے میں دوسری بڑی پارلیمانی جماعت مسلم لیگ (ن) کا موٴقف واضح ہے اور جب کوئی آئینی ترمیم سامنے آئے گی تو پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں مزید صوبے بنانے کا علم لے کر نمودار ہوں گی اور اس طرح ایسی کھچڑی پکنے لگے گی کہ سرائیکی صوبہ کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔ مثلاً ایم کیو ایم ہزارہ صوبے کا مطالبہ کر سکتی ہے، یہ مطالبہ اے این پی کو راس نہیں آئے گا۔سرائیکی صوبے کی حدود پر اکثر پارلیمانی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ اے این پی ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک و بنوں اور بلوچستان کی جماعتیں رکنی و بارکھان وغیرہ کو سرائیکی صوبے کا حصّہ بنانے پر تیار نہ ہو گی بلکہ بلوچ جماعتیں ڈیرہ غازی خان پر بھی تحفظات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ سندھ میں سرائیکی علاقوں کا کیا بنے گا؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے اشکالات اتفاق رائے یا دو تہائی ووٹوں کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔ اگر سندھ میں مہاجر صوبے کے مطالبے کو سردست منظرعام پر نہ بھی لایا گیا تو بھی بات صرف دو صوبوں پر موقوف نہ ہو گی۔ پختون، بلوچ صوبوں کی صورت میں بلوچستان کی تقسیم کا معاملہ سامنے آ سکتا ہے، اگرچہ اے این پی اس معاملے کو چھیڑنے سے احتراز کرے گی لیکن پختون خوا ملی عوامی پارٹی جو پختون علاقوں کو جنوبی پختون خوا کے نام سے پکارتی ہے اس معاملے کو حکومت کے لئے درد سر بنا سکتی ہے اور یا پھر اے این پی و پختون خوا ملی عوامی پارٹی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ مطالبہ سامنے لا سکتی ہیں کہ چوں کہ سرائیکی علاقوں کی طرح خیبر پختون خوا بلوچستان کا پختون بیلٹ اور پختون قبائلی علاقے تاریخی طور پر پختون خوا ہی کا حصّہ ہیں لہٰذا ان تینوں کو خیبر پختون خوا میں شامل کیا جائے۔ بلوچ اصولی طور پر پختونوں کے موٴقف کو تسلیم کرنے کے باوجود ان حالات میں جب وہ نادیدہ قوتوں سے برسرپیکار ہیں، بلوچستان کی تقسیم پر تیار نہ ہوں گے۔ فاٹا و قبائلی علاقوں کے ایک نئے صوبے کا خیال تیزی سے پزیرائی پا رہا ہے۔ ان کا موٴقف ہے کہ یا تو انہیں خیبر پختون خوا میں شامل کیا جائے یا پھر وسطی پختون خوا کے نام سے ان کے لئے علیحدہ صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اب جب سرائیکی صوبے کا ایشو پارلیمانی جماعتوں کے سامنے آ جائے گا تو قبائلی اراکین اسمبلی اپنا مطالبہ اس میں شامل کرنے پر اصرار کرنے لگیں گے اور اے این پی اور دیگر قوم پرست جماعتیں اس موٴقف کی تقویت کا باعث ثابت ہوں گی۔ اب چوں کہ ہوم ورک نہیں ہوا لہٰذا یہ سارے عوامل سرائیکی صوبے کو منزل سے دور رکھنے کا باعث بن جائینگے۔کیا ہی اچھا ہوتا صدر زرداری اعلان کے بجائے اس سلسلے میں تمام جماعتوں کی کمیٹی بنا کر کھلے مباحثے کا اہتمام کرتے۔ ذہن سازی، پارلیمانی تیاری اور ہوم ورک کے بغیر یہ اعلان محض شوشہ ہی متصوّر ہو گا۔ جو اصحاب صوبہٴ سرحد کے نام کی تبدیلی کے تناظر میں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ نئے صوبے بھی اسی طرح آئین کا حصّہ بن جائیں گے، وہ یہ بھی مدنظر رکھیں کہ صوبے کے نام کی تبدیلی اور نئے صوبے کی تشکیل وہ علیحدہ علیحدہ امور ہیں جب نام کی تبدیلی کے لئے اے این پی کو 60/سال انتظار کرنا پڑا تو اسٹیبلشمنٹ کے مرکز پنجاب کے حصّے کرنے کا عمل محض ایک اعلان سے کیسے ہو جائے گا؟ شاید ایسا معجزہ رونما ہو بھی جائے اور خدا کرے کہ سرائیکی عوام کو ان کا حق لوٹا دیا جائے لیکن برسر زمین حقائق مزید انتظار، فکری تحریک اور وسطی پنجاب کی حمایت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ یہ تسلیم کہ سرائیکی صوبے کی تحریک نئی نہیں لیکن پیپلز پارٹی سمیت کسی جماعت نے اب تک پارلیمانی سطح پر اس کے لئے کوئی قابل عمل آواز نہیں اٹھائی اور اس کے برعکس اے این پی کے اکابرین قیام پاکستان کے روز اوّل سے ہی نام کی تبدیلی کیلئے پارلیمانی در و دیوار ہلاتے رہے ہیں۔ مناسب ہوتا صدرزرداری اس اعلان سے قبل مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کو آمادہ کرتے۔ تنہا پرواز کا مقصد اس کے ماسوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی سرائیکی عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) راستے کا کانٹا ہے، اگلے انتخابات میں پی پی کو مزید ووٹ دے کر بھیجا جائے۔ اس طرح کی سیاسی چال سے پیپلز پارٹی کو تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن سرائیکی عوام کی مراد پوری نہیں ہوسکتی۔