63 سالوں میں پاکستان اور انڈیا کے مابین تجارتی تعلقات میں جو پیشرفت نہیں ہوسکی وہ گزشتہ ایک سال میں ہوئی ہے ۔ دونوں ممالک کو احساس ہوا ہے کہ علاقائی تجارت ایک کامیاب ماڈل ہے اور اس کے فروغ سے باہمی تجارت بڑھائی جاسکتی ہے۔ نافٹا، یورپی یونین، آسیان وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں لیکن ہمارے سارک کے خطے میں تجارت نہ بڑھنے کی اہم وجہ انڈیا پاکستان کے مابین سیاسی تنازعات ہیں جبکہ فرانس اور جرمنی، چائنا اور تائیوان ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھاکر اپنے سیاسی تنازعات کو حل کرنے میں مدد دی۔ انڈیا اور پاکستان کے حکمرانوں اور بزنس کمیونٹی نے بھی اب 63 سال بعد یہی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔پاک انڈیا تجارت کے فروغ کے سلسلے میں گزشتہ سال اپریل میں دونوں ممالک کے سیکریٹریز تجارت کی اسلام آباد اور پھر دہلی میں ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ممالک کی تجارت میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے کیلئے ایک روڈ میپ تشکیل دیا گیا۔ گزشتہ سال ستمبر میں 35 سال کے بعد پاکستان کے وزیر تجارت مخدوم امین فہیم 100 بزنس مینوں اور فیڈریشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد کو دہلی لے کر گئے جس میں،میں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کی نمائندگی کی اور پاکستان اور انڈیا کے مابین حائل NTBsکو دور کرنے کے انڈیا کے تمام متعلقہ اداروں کے سربراہان کے ساتھ ایک سیمینارکی صدارت کی جس میں ہم نے پاکستان کی انڈیا ایکسپورٹ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے ایک میکنزم پر اتفاق کیا۔ اسی دورے میں انڈیا کے وزیر تجارت نے خیر سگالی جذبے کے تحت WTO میں یورپی یونین کی پاکستان کی 75 مصنوعات کو بغیر کسٹم ڈیوٹی کی امپورٹ پر اپنا دائر اعتراض واپس لے لیا۔ اس سال فروری میں پاکستانی وزیر تجارت کی دعوت پر 63 سال بعد انڈیا کے وزیر تجارت آنند شرما نے 100 سے زیادہ انڈیا کے ممتاز بزنس مینوں، FICCI کے نمائندوں اور سارک چیمبر کے صدر وکرم جیت شانی کے ہمراہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا تاریخی دورہ کیا۔ پاکستان نے انڈیاسے مصنوعات کی امپورٹ کی منفی لسٹ کو ختم کرکے ان 1200 آئٹمز کے علاوہ تمام مصنوعات کو انڈیا سے تجارت کی اجازت دے دی۔ اسی طرح انڈیا نے بھی اپنی منفی لسٹ میں کمی کرکے باقی تمام مصنوعات کی آزادانہ تجارت کی اجازت دی۔ اسی دوران پاکستان کی کابینہ نے انڈیا کو انتہائی پسندیدہ ملک (MFN) کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور اس حوالے سے سفارشات کو پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے بھیج دیا جبکہ انڈیا پاکستان کو پہلے ہی انتہائی پسندیدہ ملک (MFN) کا درجہ دے چکا ہے جو ہر WTO ممبر ملک کیلئے اپنے ممبر ممالک کو دینا لازمی ہوتا ہے۔
دونوں ممالک کے مابین تجویز کردہ روڈ میپ کے تحت حال ہی میں وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کی سربراہی میں میرے علاوہ سیکریٹری تجارت ظفر محمود، چیف ایگزیکٹو TDAP طارق پوری، بزنس لیڈرز طارق سعید، افتخار علی ملک کے ہمراہ 12 سے 15 اپریل دہلی میں منعقدہ ”لائف اسٹائل پاکستان“ کی نمائش جس کا اہتمام TDAP نے کیا تھا میں شرکت کیلئے پاکستانی وفد انڈیا گیا۔وفد میں شریک زیادہ تر اعلیٰ سرکاری حکام اور بزنس مین اپنی اہلیہ کے ہمراہ تھے جس سے ایک فیملی ماحول بن گیا تھا۔ اس نمائش میں پاکستان کے تمام بڑے ٹیکسٹائل برانڈز اور تقریباً 600 مندوبین نے حصہ لیا جس میں ٹیکسٹائل کے علاوہ جوتے، ماربل، فرنیچر اور پاکستانی خواتین کے لان اور دیگر ملبوسات کو نہایت پسند کیا گیا اور زیادہ تر ڈیزائنرز کے ملبوسات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ بھارتی میڈیا نے ہمارے اس دورے کو نہایت اہمیت دی اور مجھے، میاں محمد منشا، طارق پوری وغیرہ کو مختلف ٹی وی چینلز نے اپنے ٹی وی پروگرامز میں مدعو کیا۔ انڈین فیڈریشن (FICCI) نے پاکستانی اور بھارتی بزنس مینوں کی B2B میٹنگز کا اہتمام کیا تھا۔ ”لائف اسٹائل پاکستان“ کے پہلے دن انڈیا کے وزیر تجارت آنند شرما نے وفد کے اراکین کے اعزاز میں ایک عشائیہ اور موسیقی کے پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ وزیر تجارت امین فہیم جو پارلیمنٹ کے اجلاس کی وجہ سے ہمارے ساتھ انڈیا نہیں پہنچ سکے تھے بعد میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ وزیراعظم کے خصوصی طیارے سے دہلی پہنچتے ہی عشائیے میں شرکت کی۔اسی روز دوپہر میں بھارتی وزیر تجارت کے ظہرانے کے فوراً بعد ہمیں خصوصی طیارے میں دہلی سے امرتسر اور پھر بذریعہ روڈ واہگہ بارڈر لے جایا گیا۔اس تاریخی سفر میں ہمارے ساتھ انڈیا کے وزیر داخلہ چدم برم، وزیر تجارت آنند شرما، پاکستانی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم، بھارت میں پاکستان کے سفیر شاہد ملک،ٹریڈ منسٹر نعیم انور، دونوں ممالک کے سیکریٹری تجارت، سارک چیمبر کے صدر وکرم جیت شانی اور میرے علاوہ افتخار علی ملک شریک تھے جبکہ واہگہ بارڈر پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا استقبال بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بادل سنگھ نے کیا۔ اٹاری واہگہ بارڈر پر نہایت جدید سہولتوں کے ساتھ انٹریگریٹڈ چیک پوسٹ (ICP)ٹرمینل کا افتتاح کیا گیا۔ یہ ٹرمینل 118 ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں اسکینرز، کلوز سرکٹ کیمرے نصب ہیں۔اس وقت انڈیا سے بذریعہ روڈ صرف 150 اشیاء پاکستان لانے اجازت ہے لیکن پاکستان کو امپورٹ کرنے والی اشیاء کی منفی لسٹ میں نہایت کمی سے اب 7800 اشیاء بذریعہ روڈ پاکستان لائی جاسکیں گی۔ جدید سہولتوں پر مشتمل ICPٹرمینل سے پھل اور سبزیوں کی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا جس کو دیکھتے ہوئے مجھے امید ہے کہ اگر دونوں ممالک کے مابین براہ راست تجارت کی جائے تو ہم آنے والے وقت میں 7 ارب ڈالر کا باہمی تجارت کا ہدف حاصل کرلیں گے۔ دونوں ممالک کے لیڈران نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 63 سالوں میں ہم نے وہ سب کچھ کیا جس سے دونوں ممالک کو نفرتوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، آئیں اب تجارت اور امن کو فروغ دیں جس کی دونوں ممالک کے لوگوں کو اشد ضرورت ہے۔ دونوں ممالک نے انڈیا پاکستان کے بزنس مینوں کیلئے آسان اور آزادانہ ویزے کے حصول پر اتفاق کیا ہے جس میں 10 شہروں کیلئے ملٹی پل نان رپورٹنگ ویزا کے اجراء کیلئے جلد ہی دونوں ممالک کے داخلہ سیکریٹریز ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔ دونوں ممالک میں بینکوں کی برانچز کھولنے پر بھی اتفاق ہوا ہے جو تجارتی فروغ کیلئے نہایت ضروری ہے۔ باسمتی چاول کی برانڈ رجسٹریشن کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے دہلی میں REAP کے وفد سے مذاکرات ہوئے۔ دورے کے دوران تعلیم کے شعبے میں تعاون کیلئے ”امن کی آشا“ کے تحت IBA کے ڈین ڈاکٹر عشرت حسین اور انڈین اسکول آف بزنس حیدرآباد کے ڈپٹی ڈین دیپک چندرا نے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے۔
دورے کے دوسرے دن TDAP نے تاج ہوٹل میں ایک پرتکلف عشائیے جس میں پاکستانی ملبوسات کی نمائش کیلئے ایک فیشن شو اورموسیقی کے پروگرام کا اہتمام کیا تھاجس میں پاکستان کے نامور گلوکار علی ظفر اور صنم ماروی نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے ہال میں موجود سینکڑوں مہمانوں کے دل جیت لئے۔ میں انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک، ٹریڈ منسٹر نعیم انور، وزارت تجارت اور TDAP کی پوری ٹیم کو اس کامیاب نمائش کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ میں انڈیا کے پاکستان میں ہائی کمشنر سرت سبروال اور خصوصاً کمرشل قونصلر اروند سکسیناکا اس دورے کے سلسلے میں انتہائی تعاون کا شکر گزار ہوں۔ دورے کے آخری روز میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری کیلئے اجمیر شریف گیا۔ مزار کے سجادہ نشین اور چشتی فیملی ہمیں جے پور لینے آئے تھے اور ہماری حاضری کا خصوصی اہتمام کیا تھا جہاں میں نے ملک کی سلامتی اور امن و امان کیلئے خصوصی دعائیں کیں اور اس طرح ہم پانچویں دن دہلی سے کراچی ایک تاریخی اور کامیاب دورے سے واپس وطن پہنچے۔