Results 1 to 6 of 6

Thread: ایک خطرناک كام

  1. #1
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    candel ایک خطرناک كام


    ہرمسلمان (مردوعورت)جو اللہ اور آخرت کےدن پر ایمان ویقین رکھتاہواس کےلئے مناسب ہےکہ ہر اس چیز سےاپنی زبان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کرےجوموجبِ غضبِ الہی ہو۔کوئی ٹھوس ثبوت اور بغیر کسی سبب کےکسی مسلمان Ú©Ùˆ کافر کہنےاور دین اسلام سےاُسے نکالنےسےمکمل طور پر اØ+تیاط برتے،کیونکہ بغیر علم وبصیرت Ú©Û’ کسی Ú©Ùˆ کافر کہ دینا وہ خطرناک امر ہے جو خون خرابہ اور تفرقہ بازی کا سبب بنتاہے Û”

    لہذا جس کےپاس علم ومعرفت اور بصیرت ودانائی نہ ہو اس کےلئے جائزنہیں ہےکہ اس مسئلہ Ú©Ùˆ چھیڑے ØŒ کفر کا Ø+Ú©Ù… اُسی بات پر Ù„Ú¯Û’ گاجسے اللہ اور اُس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلمنےاسلام Ú©Û’ منافی امور میں سے کسی امر Ú©Û’ مرتکب کوکافر قرار دیاہو اور جن اُمور پر علماء کا اتفاق ہو Û”

    پھر یہیں سےایک مسلمان پر ضروری ہےکہ اس بارے میں کلام کرنےسے پہلے علم سیکھے اور بغیر علم ومعرفت کے اس بارے میں کوئی بات نہ کرے ورنہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کی وجہ وہ خود ایسے سےدو بڑے جرم کامرتکب ہوگا کہ ان میں کا ہر ایک دوسرے سے زیادہ خطرناک ہے،اور وہ یہ ہیں:

    ôبغیر علم کےاللہ پر بہتان باندھنا:

    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِباً
    (الأنعام21)

    (اس سے زیادہ بےانصاف کون ہوگاجو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے)

    نیز ارشاد ہے:

    قُلْ إِنَّمَا Ø+َرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاØ+ِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْØ+َقِّ ÙˆÙŽØ£ÙŽÙ† تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً ÙˆÙŽØ£ÙŽÙ† تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
    (الأعراف33)

    (آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نےصرف Ø+رام کیاہے ان تمام فØ+Ø´ باتوں کوجواعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ Ú©ÛŒ بات Ú©Ùˆ اور ناØ+Ù‚ کسی پرظلم کرنے Ú©Ùˆ اوراس بات Ú©Ùˆ کہ تم اللہ Ú©Û’ ساتھ کسی ایسی چیز Ú©Ùˆ شریک ٹھہراؤ جس Ú©ÛŒ اللہ Ù†Û’ کوئی سند نازل نہیں Ú©ÛŒ اور اس بات Ú©Ùˆ کہ تم لوگ اللہ Ú©Û’ ذمے ایسی بات لگادو جس Ú©Ùˆ تم نہیں جانتے)


    اس آیت میں اللہ پر بغیر علم کے کوئی بات کہنےکو اللہ نے شرک سے زیادہ خطرناک بتایاہے اسی لئے اس کا ذکر شرک کے بعد ہواہے۔

    ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
    وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً
    (الإسراء36)

    (جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہواس کے پیچھے مت پڑ،کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے)

    پس ضروری ہے کہ انسان کچھ بولنے سے پہلے اسے سیکھے،کیونکہ قول وعمل کا مرتبہ علم کے بعد ہے۔

    ارشاد الہی ہے: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِن ÙŠÙ†ÙŽ ÙˆÙŽØ§Ù„Ù’Ù…ÙØ¤Ù’Ù…ÙÙ†ÙŽØ §ØªÙ
    (Ù…Ø+مد19)

    (پس (اے نبی!)آپ جان لیں کہ اللہ Ú©Û’ سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں Ú©ÛŒ بخشش مانگا کریں اور مومن مَردوں اور مومن عورتوں Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں بھی)


    لہذا جس قول کی بنیاد علم پر نہ ہو خصوصاً دین اور عقیدہ کے معاملہ میں تو وہ باطل قول ہے اور اللہ پر کذب بیانی ہے۔

    2- مسلمان پر ظلم :

    کسی مسلمان Ú©Ùˆ کافر اور اُسے دینِ اسلام سے خارج کہنا اُس مسلمان پر ظلم ہے کیونکہ اس Ø+Ú©Ù… Ú©Û’ بعد اس پر کئی اØ+کام مرتب ہوتے ہیں ،مثلاً:بیوی اس سے جُدا ہوجائےگی، نہ اس کا کوئی وارث اور نہ وہ کسی کا وارث ہوگا،مرنے Ú©Û’ بعد غسل Ùˆ کفن، نمازِ جنازہ ØŒ Ùˆ دعاکی جائے Ú¯ÛŒ اور نہ ہی اُسے مسلمانوں Ú©Û’ قبرستان میں دفنایا جائے گا۔ پس جس Ù†Û’ اُسے بغیر Ø+Ù‚ کےکافر کہا تو اس پر مرتب ہونے والے مذکورہ امور کاوہ خود متØ+مل ہوگا۔

    اسلئے ضروری ہےکہ انسان ان امور Ú©Ùˆ جانے جو مُوجبِ کفر Ùˆ ارتداد ہو،بغیر علم Ú©Û’ بات کرے اور نہ اپنی رائے Ú©Û’ مخالف پر کُفر کا Ø+Ú©Ù… لگائے۔

    پھریہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس علم کا ماخذ کہاں ہے؟ کیا یہ علم کتابوں Ú©Û’ مطالعے،اور شرعی نصوص Ú©Ùˆ Ø+فظ کرنے سے Ø+اصل ہوگا؟ نہیں ،ایسا ہرگز نہیں ہے ،بلکہ پختہ اور گہراعلم رکھنے والے علماء ہی سے یہ Ø+اصل ہوسکتاہے ۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شخص کتابوں کا مطالعہ کرلے اور نصوص Ú©Ùˆ یاد کرلے وہ عالم بھی بن جائے،عالم تووہی ہے جسے اللہ Ú©Û’ دین Ú©ÛŒ سمجھ بوجھ ہو ،اور یہ چیز اہلِ علم سے ایک طویل عرصہ تک اخذ وتلقی Ú©Û’ بعد ہی Ø+اصل ہوگی۔

    تکفیر سے متعلق یہ صورت Ø+ال ان اولین بدعتوں میں سے ہےجو خوارج Ú©Û’ ذریعہ اسلام میں ظاہر ہوئی ،یہ پہلی صدی ہجری Ú©Û’ نصف اول کا زمانہ تھا۔ اس گمراہی میں جس چیز Ù†Û’ انہیں مبتلا کیا وہ اُن کا دین میں قلتِ فہم ،سنتِ رسول Ú©ÛŒ عدم معرفت ØŒ اپنی عبادتوں پر اترانا ،اور ظاہری نصوص پر اڑے رہنا تھا Û”

    عصرِ Ø+اضرمیں کسی بھی غلطی یا گناہ پر کُفر کا فتوی لگانا،کسی Ú©Ùˆ کافر کہ دینا (دین میں)غلو کا ایک مظہر ہے۔یہ فتوئے کفر مسلمانوں Ú©Û’ جان ومال Ú©ÛŒ Ø+لت کا سبب بنتاہے ØŒØ+الانکہ مسلمان اگرچہ کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہاہے لیکن وہ اپنے اسلام پر باقی ہے ØŒ اس پر نہ تو کُفر کا فتوی Ù„Ú¯Û’ گا اور نہ ہی اُسے کافر قرار دیا جائےگا الا یہ کہ وہ کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس سے کفر لازم آتا ہے، اس Ø+ال میں بھی اُس پر کفر کا فتوی اس وقت تک نہ Ù„Ú¯Û’ گا جب تک کہ اس Ú©Û’ سامنے اس Ú©ÛŒ وضاØ+ت نہ کردی جائے، اور اس Ú©Û’ بعد بھی یہ Ø+Ú©Ù…ØŒ پختہ علم رکھنے والے اہلِ علم کےذریعہ ہی ہوگا ،وہی لوگ اُس Ú©Û’ اوپر کفر وردت کا Ø+Ú©Ù… لگائیں گے،ہر ایرے غیرے Ú©Ùˆ یہ اختیار نہ دیا جائے گا Û”

    ôکسی کو کافر کہنے کی ممانعت:

    اسلام Ù†Û’ کسی مسلمان Ú©Ùˆ کافرکہنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس سے مکمل طور پر بچنے کا Ø+Ú©Ù… دیا ہے ۔چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً
    (النساء94)


    (اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اُسے یہ نہ کہ دو کہ تو ایمان والا نہیں)


    ایک مسلمان کا کام صرف یہ ہےکہ وہ بصیرت، علم اور دور اندیشی کے ساتھ
    لوگوں Ú©Ùˆ اللہ Ú©ÛŒ طرف بلائے،اُسے یہ Ø+Ú©Ù… نہیں ہے کہ وہ لوگوں کےدلوںمیں کیا پوشیدہ باتیں ہیں اس کا فیصلہ کرے۔

    دوستو!
    آئیےچند دلائل اور اہلِ علم کے اقوال کی روشنی میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتےہیں۔

    Ø+ضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنےفرمایا:

    "إذا قال الرجل لأخيه يا كافرفقد باء بها Ø£Ø+دهما، فإن كان كما قال وإلارجعت إليه"
    (بخاري ومسلم)

    (جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو مخاطب کرکے کہتا ہےکہ اےکافر!تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا،اگر وہ ایسا ہی ہے جس کو اس نے کافر کہا ہے ورنہ پکارنے والےپر لوٹ آئےگا)


    اور Ø+ضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ انہوں Ù†Û’ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا:
    "من دعا رجلاً بالكفر أو قال عدو الله وليس كذلك إلا Ø+ار عليه"
    (بخاري ومسلم)

    (کہ جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یا اسے اللہ کے دشمن کہہ کرمخاطب کرے پھر وہ (جس کو اس نام سےپکارا ہے)ایسا نہ ہو تو وہ پکارنے والے پر پلٹ آئےگا)


    ایک اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
    "إذا قال المسلم لأخيه يا كافر فقد باء بها Ø£Ø+دهما"
    (بخاري)
    (جب کوئی مسلمان اپنے(مسلم)بھائی کو کافرکہے تووہ کفر دونوں میں سےکسی پر ضرور پلٹے گا )

    ایک دوسرے مقام پرØ+ضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
    "ثلاث من أصل الإيمان:
    الكف عمن قال لا إله إلا الله لانكفره بذنب ولا نخرجه من الإسلام بعمل، والجهاد ماضٍ منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال ، لايبطله جور جائر ولاعدل عادل، والإيمان بالأقدار"

    (ابوداؤد(2532)ترمذي(197 8)
    Ø+اكم Ù†Û’ صØ+ÛŒØ+ قرار دیاہے اور ذہبی Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ موافقت Ú©ÛŒ ہے)

    (کہ تین چیزیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں : (1) لا الہ الا اللہ کہنے والےسےہاتھ روکنا،کسی گناہ کی وجہ سے نہ اُسے کافر کہنا اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اُسےدائرہ اسلام سے خارج کرنا۔(2)میری بعثت سے لے کر جہاد اس وقت تک جاری رہےگا جب تک کہ میری اُمت کا آخری (گروہ)دجال سے قتال نہ کرے ،نہ کسی ظالم کا ظلم اُسے باطل ٹھہرا سکتاہے اور نہ کسی عادل کا عدل۔(3)اور تقدیر پر ایمان)


    جیساکہ اپنی کتابوں میں ائمہ اسلام نے متنبہ کیا ہے:

    فرماتے ہیں کہ"کسی Ú©Û’ لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان پر کفر کا فتوی لگائے اگرچہ وہ غلطی اور خطا کرے یہاں تک کہ اس پر Ø+ُجت قائم کردی ،اور اس Ú©Ùˆ صØ+ÛŒØ+ طریقہ بتادیاجائے، اور واضØ+ رہے کہ جس کا مسلمان ہونا یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے تومØ+ض Ø´Ú© Ú©ÛŒ وجہ سے اُس سے زائل نہ ہوگا بلکہ Ø+ُجت قائم ہونے یا شُبہ Ú©Û’ ازالہ Ú©Û’ بعد ہی زائل ہوگا"
    (مجموع فتاوی 12/466)

    Ø+ضرت امام اØ+مد – رØ+مہ اللہ – علماء جہمیہ اور ان Ú©Û’ قاضیوں سے کہتے تھے:اگر تمھارا قول میں کہوں تو میں کافر ہو جاؤں گا لیکن میں تمھیں کافر نہیں کہتا اسلئے کہ تم سب میرے نزدیک جاہل ہو۔

    علامہ شوکانی – رØ+مہ اللہ – فرماتے ہیں: "جان لو کہ کسی مسلمان پر اس Ú©Û’ دین سے خارج ہونے کا Ø+Ú©Ù… لگانا اور (یہ کہنا کہ )وہ کفر میں داخل ہوگیا،کسی ایسے مسلمان Ú©Û’ لئے جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہو مناسب نہیں ہے کہ اُس (مسلمان)پر (اس طرØ+ کا Ø+Ú©Ù… لگانے Ú©ÛŒ )ہمت کرےالا یہ کہ اس Ú©Û’ پاس ایسی دلیل ہو جو سورج سے زیادہ واضØ+ اور روشن ہو، اسلئے کہ صØ+ابہ Ú©ÛŒ ایک جماعت سے مروی کئی صØ+ÛŒØ+ Ø+دیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جس Ù†Û’ اپنے بھائیوں سے کہا اے کافر!تو وہ کفر ان میں سے کسی ایک پر ضرور لوٹےگا Û” (بخاری)Û”

    اور بخاری ومسلم اور ان کےعلاوہ دوسری Ø+دیث Ú©ÛŒ کتابوں میں ان الفاظ میں وارد ہے کہ جس Ù†Û’ کسی آدمی Ú©Ùˆ کافر کہ کر بلایا ØŒ یا اللہ کا دشمن کہ کر پکارا اور وہ ایسا نہ ہو تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔ اور ایک دوسرے لفظ میں ہے کہ ان میں سے ایک کافر ہوگیا Û”

    تویہ Ø+دیثیں اور اس طرØ+ Ú©ÛŒ دوسری Ø+دیثوں میں اس بات پر سخت تنبیہ اور بڑی نصیØ+ت ہے کہ کسی Ú©Ùˆ کافر کہنے میں جلد بازی سے کام لیا جائے..." (السیل الجرار: (4/578)




    Last edited by Mohammad Sajid; 01-05-2012 at 12:19 AM.

  2. #2
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: ایک خطرناک كام


    Ø+ضرت امام مالک – رØ+مہ اللہ – کہتے تھے:اگر ننانوے سبب سے کسی شخص Ú©Û’ کافر ہونے اور ایک وجہ سے مسلم ہونے کا اØ+تمال ہو تو مسلم سے Ø+ُسنِ ظن Ú©ÛŒ بنا پر اُسے مسلم کہا جائےگا۔

    جیسا کہ کتاب "صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دØ+لان "میں امام Ù…Ø+مد بن عبد الوہاب کا یہ صریØ+ قول موجود ہے کہ عبد القادر جیلانی اور سید بدوی Ú©ÛŒ قبروں Ú©Û’ پاس سجدہ کرنے والے Ú©Ùˆ اس وقت تک کافر نہیں کہیں Ú¯Û’ یہاں تک کہ اس پر Ø+ُجت قائم ہوجائے۔

    مسئلہ تکفیر اور اس Ú©ÛŒ خطرناکی Ú©Û’ بارے میں چند اØ+ادیث اور علماء سلف اور اہلِ صلاØ+ وتقوی اہلِ علم Ú©Û’ اقوال Ú©Û’ یہ چند نمونے ہیں۔برخلاف اس Ú©Û’ جن Ú©ÛŒ زبان سے بغیر علم وبرہان Ú©Û’ تØ+لیل وتØ+ریم، تبدیع وتفسیق اور تکفیر Ú©Û’ فتوے ہم سنتے رہتے ہیں اور خاص کر علماءو امراء اور Ø+ُکام Ú©Û’ بارے میں تکفیر Ú©Û’ فتوے تو بہت عام ہیں Û”

    ô تکفیرسے متعلق اہم ضابطے اور اُصول:

    (1) لفظ ایمان اور کفر ان شرعی الفاظ میں سے ہیں جن کا مفہوم انسان اپنی عقل اور خواہش سے متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس Ú©Û’ لئے شرعی قیود Ú©ÛŒ پابندی اور غایت درجہ اØ+تیاط ضروری ہے۔چنانچہ کتاب وسنت میں جن لوگوں Ú©Û’ کفر وفسق پر واضØ+ دلیل موجود ہے اُسے ہی کافر یا فاسق کہا جائےگا۔

    (الرد علی البکری لشیخ الاسلام ابن تیمیہ ص:258ØŒ ملاØ+ظہ فرمائیے:براءۃ السنۃ جنیدی Ú©ÛŒ ص: 39)


  3. #3
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: ایک خطرناک كام



    ô تکفیرسے متعلق اہم ضابطے اور اُصول:

    (1) لفظ ایمان اور کفر ان شرعی الفاظ میں سے ہیں جن کا مفہوم انسان اپنی عقل اور خواہش سے متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس Ú©Û’ لئے شرعی قیود Ú©ÛŒ پابندی اور غایت درجہ اØ+تیاط ضروری ہے۔چنانچہ کتاب وسنت میں جن لوگوں Ú©Û’ کفر وفسق پر واضØ+ دلیل موجود ہے اُسے ہی کافر یا فاسق کہا جائےگا۔



    (2) کفر وشرک اور ظلم میں سے ہر ایک Ú©ÛŒ دو قسم ہے:اکبر اور اصغر، یہ وہ اہم قاعدہ ہے جو خوارج اور ان Ú©Û’ پیروکاروں پر مخفی ہے، البتہ سلف صالØ+ین Ú©Û’ نزدیک یہ واضØ+ اور معروف رہا ہے۔ چنانچہ Ø+ضرت امام بخاری –رØ+مہ اللہ – اپنی صØ+ÛŒØ+ میں فرماتے ہیں :"باب کُفران العشیر وکفر دُونَ کفر"(باب خاوندوں Ú©ÛŒ ناشکری Ú©Û’ بیان میں اور ایک کفر کا – اپنے درجہ میں – دوسرے کفر سے Ú©Ù… ہونے Ú©Û’ بیان میں )

    Ø+افظ ابن Ø+جر- رØ+مہ اللہ– لکھتے ہیں کہ قاضی ابو بکر ابن العربی اپنی شرØ+ میں فرماتے ہیں :اس قول سے مصنف یہ واضØ+ کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرØ+ طاعات Ú©Ùˆ ایمان کہا جاتا ہےاسی طرØ+ معصیت Ú©Ùˆ کفرکا نام دیا جاتا ہے ۔لیکن جس جگہ معصیت پر کفر کا اطلاق ہوگا وہاں کفر سے مُراد وہ کفر نہ ہوگا جو ملت سے نکال دینے والا ہے Û”
    [ الفتØ+ : 1/83 ]

    [الابانۃ لابن بطۃ 2/723ØŒ ملاØ+ظہ فرمائیے:براءۃ السنۃ ص:4،فتØ+ الباری: (1/83-87)،مدارج السالکین: (1/344)،اقتضاء الصراط المستقیم : (1/207)]Û”

    (3) کسی شخص معین Ú©ÛŒ تکفیر اوراس Ú©Û’ قتل کا جواز اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ اس Ú©Û’ سامنے ان دلائل نبویہ Ú©ÛŒ وضاØ+ت نہ کردی جائے جن Ú©ÛŒ مخالفت کفر تک پہونچادیتی ہے ØŒ اس لئے کہ ہر جاہل Ú©Ùˆ کافر نہیں کہا جائے گا۔

    ( مجموع الفتاوی: (3/229)۔

    (4) کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا Ø+ُکم لگانے سے قبل دو چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے :

    (الف) کتاب وسنت میں واضØ+ دلالت موجود ہو کہ یہ قول یا فعل مُوجب کفر یا فسق ہے۔

    (ب) اس عمل Ùˆ قول Ú©Û’ کہنے اور کرنے والے شخص پر Ø+Ú©Ù… لاگو بھی ہو اس طرØ+ کہ تکفیر اور تفسیق Ú©Û’ شروط اس Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں پورے ہوتے ہوں اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو Û”

    ôتکفیر (مُعین )کے شرائط:

    اہلِ سنت وجماعت اس وقت تک کسی مسلمان پر کفر یا ارتداد کا Ø+Ú©Ù… نہیں لگاتے جب تک کہ متفق علیہ اسلام Ú©Û’ منافی امور جو علماء Ú©Û’ نزدیک معروف ہیں ان میں سے کسی امر کا مرتکب نہ ہوجائے،نیزیہ بھی ضروری ہے کہ جس پر ارتداد اور کفر کا Ø+Ú©Ù… لگایا جارہا ہے ذیل میں آنے والے شرائط بھی پائے جائیں Û”

    (1) وہ شخص جاہل نہ ہو جس Ú©ÛŒ وجہ سے وہ معذور سمجھا جائے۔جیسے کوئی نیا مسلمان ہوا اور شرعی اØ+کام Ú©Ùˆ ابھی تک نہ سیکھ سکا،یا ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں اسلام کا بول بالا نہیں ہے اور قرآن Ú©ÛŒ تعلیمات قابلِ فہم انداز میں اس تک نہ پہنچی ہوں، یا وہ جس عمل کفر کا ارتکاب کررہا ہے ایسا مخفی Ø+Ú©Ù… ہو جو Ù…Ø+تاجِ بیان ہو۔

    (2) وہ مجبور نہ کیا گیا ہو کہ اپنی مجبوری Ú©ÛŒ وجہ سے صرف چھٹکارا Ø+اصل کرنا چاہتا ہے۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    )Ù…ÙŽÙ† كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَØ+ÙŽ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
    ((النØ+Ù„106)

    (جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرےبجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو ، مگر جو لوگ کھُلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب اور انہیں کے لئے بہت بڑا عذاب ہے
    )

    یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ جو شخص مجبوراً کلمہ Ø¡ کفر ادا کرے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور اس کا مقصد صرف چھٹکارا Ø+اصل کرنا ہو تو وہ کافر نہ ہوگا۔

    (3) وہ ایسی تاویل کرنے والا نہ ہو جسے وہ صØ+ÛŒØ+ سمجھ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اس Ú©ÛŒ اس غلطی Ú©Ùˆ واضØ+ کیا جائے۔

    (4) جہالت Ú©ÛŒ وجہ سے کسی ایسے شخص Ú©ÛŒ تقلید کرنے والا نہ ہو جسے وہ Ø+Ù‚ پر سمجھ رہا ہے یہاں تک کہ اس Ú©ÛŒ (جس Ú©ÛŒ تقلید کررہا ہے)Ø+قیقت Ú©Ùˆ واضØ+ نہ کردیا جائے۔

    (5) دین کا پختہ علم رکھنے والے ہی کسی Ú©Û’ مُرتد یا کافر ہونے کا Ø+Ú©Ù… لگائیں Ú¯Û’ جو ہر Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ اس کا صØ+ÛŒØ+ مقام دیتے ہیں ØŒ اس بارے میں کسی جاہل اور طالب علم Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

    خلاصئہ کلام یہ کہ صØ+ÛŒØ+ اور واضØ+ دلیل Ú©Û’ بغیر کسی مسلمان Ú©Ùˆ خارج از اسلام قرار دینا ایک خطرناک امر ہے، جیسا کہ Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ صفØ+ات میں دلائل Ú©Û’ ذریعہ اس Ú©ÛŒ خطرناکی واضØ+ ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے۔ (الغلو مظاهره Ù€ أسبابه Ù€ علاجه)

    ôتکفیر مُطلق:

    قارئین کرام!مذکورہ باتیں کسی شخص مُعین کو کافر قرار دینے سے تعلق رکھتی ہیں،البتہ جہاں تک تکفیر مُطلق کا تعلق ہےتو جو شخص اعمالِ کفریہ میں سے کسی عمل کا مُرتکب ہوگا اُسے مُطلقاً (اس کا نام لئے اور متعین کئے بغیر)کافر کہا جائے گا ۔

    مثلاً:یوں کہا جائے گا کہ جس Ù†Û’ اس طرØ+ کا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے،جوان امور میں جو اللہ Ú©Û’ ساتھ خاص ہیں یہ کام کرے وہ کافر ہے،جو غیر اللہ سے فریاد کرے وہ کافر ہے۔

    اس لئے کہ جوشخص بھی اعمالِ کفر کا مُرتکب ہوگا اس Ú©Û’ کافر ہونے پر کتاب وسنت اور سلف صالØ+ین Ú©Û’ اقوال میں دلیل موجود ہے۔

    چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    )إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ Ø£ÙŽÙ† يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ Ø£ÙŽÙ† يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ Ø+َقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً

    ((النساء150-151)

    ( جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں ۔یقین مانو یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں، اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے)۔

    نیز ارشاد ہے
    ÙˆÙŽÙ…ÙŽÙ† يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا Ø+ِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِØ+ُ الْكَافِرُونَ( (المؤمنون117)

    (اور جو شخص اللہ Ú©Û’ ساتھ کسی دوسرے معبود Ú©Ùˆ پکارے جس Ú©ÛŒ کوئی دلیل اس Ú©Û’ پاس نہیں ،پس اس کا Ø+ساب تو اس Ú©Û’ رب Ú©Û’ اوپر ہی ہے بے Ø´Ú© کافر لوگ نجات سے Ù…Ø+روم ہیں) Û”

    اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    "من مات يشرك بالله شيئا دخل النار"
    (بخاری:1283،مسلم:92)

    (جو شخص اس Ø+الت میں مرجائے کہ اللہ Ú©Û’ ساتھ کسی Ú©Ùˆ شریک کرتاہو تو ہو جہنم میں جائےگا )

    نیز آپ کا ارشاد ہے:
    " العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر"
    (اØ+مد، ترمذی،ابن ماجہ ØŒ بروایت یزید وغیرہم)

    ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے ،جس نے نماز کو ترک کردیا اس نے کفر کیا)۔

    اسی طرØ+ سلف صالØ+ین بعض اہلِ بدعت کوان Ú©Û’ کفریہ اعمال واقوال Ú©ÛŒ وجہ سے
    (اس کا نام لئے بغیر)کافر کہتے تھے۔مثلاً: قرآن اللہ کا کلام ہے جس نےاسے مخلوق کہا وہ کافر ہے اور جو اس Ú©Û’ کفر میں Ø´Ú© کرے وہ بھی کافر ہے۔اور جس Ù†Û’ تقدیر کا انکار کیا وہ کافر ہے، اسی طرØ+ جس Ù†Û’ صØ+ابہ کرام Ú©Ùˆ گالی دی وہ کافر ہے گرچہ وہ روزہ رکھے، نماز Ù¾Ú‘Ú¾Û’ØŒ اور مسلمان ہونے کا دعوی کرے،اسی طرØ+ جو Ø+ضرت علی (رضی اللہ عنہ) Ú©Û’ معبود ہونے کا اعتقاد رکھے، یا یہ کہ (اصل) نبی وہی ہیں Ø+ضرت جبریل علیہ السلام سے تبلیغ رسالت میں غلطی ہوئی،تو اس Ú©Û’ کفر میں کوئی Ø´Ú© نہیں بلکہ اس Ú©Û’ کافر ہونے میں جو توقف کرے وہ بھی کافر ہے Û”

    اسی طرØ+ جو یہ گمان کرے کہ نبی (Ú©ÛŒ وفات) Ú©Û’ بعد سوائے چند Ú©Û’ سارے صØ+ابہ مُرتد ہوگئے،اور (نعوذ باللہ )عموماً صØ+ابہ فاسق ہوگئے،تو اس Ú©Û’ کفر میں کوئی Ø´Ú© نہیں بلکہ اس طرØ+ Ú©Û’ کفر میں جو Ø´Ú© کرے وہ یقینی طور سے کافر ہے۔

    ôتکفیرِ مُطلق میں دو چیزوں کی رعایت:

    (1) اس مسئلہ میں اس بات کی رعایت ضروری ہےکہ اس (تکفیر مطلق)سے تکفیر مُعین لازم نہیں آتا اسلئے کہ آدمی کبھی کفریہ کام کرتا ہے یا اس کی زبان سے کُفریہ کلمات نکل جاتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس میں تکفیر کے شروط پائے جاتے ہوں اور اس بارے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

    (2) اس باب میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ سلف سے بعض بدعتی فرقے کی جو تکفیر منقول ہے اس کا تعلق تکفیر مطلق سے ہے ، اس سے اس فرقے کے ہر شخص کی تکفیر لازم نہیں آتی ۔

    جیسے سلف کا جہمیوں اورقدریوں کو کافر کہنا،تو اِن کو کافر کہنا اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ ہر جہمی اور ہر قدری کافر ہے۔ان کے علاوہ اور جن دوسرے فرقوں کو سلف نے کافر کہا ہے اس سے ان کے اعیان کی تکفیر لازم نہیں آتی۔

    (موقف اہل السنہ والجماعۃ من اہل الاہواء والبدع:1/185-191)

    میرے بھائیو!تکفیر مُعین کا معاملہ بڑا خطرناک ہے جیسا کہ آپ کو گزشتہ بیان سے اندازہ ہوگیا ہوگا اسلئے اس معاملہ میں جلدی نہ کریں بلکہ اس مسئلہ میں پختہ علم رکھنے والے علماء کی طرف رجوع کریں ۔بغیر علم کے کلام کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔

    اللہ ہمیں اور آپ کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
    (آمین)

    (وما توفيقي إلا بالله)



    المراجع والمصادر:

    1Ù€ تكفير المعين. للشيخ الإمام العلامة عبد الله بن عبد الرØ+من أبا بابطين

    2Ù€ الغلو مظاهره Ù€ أسبابه Ù€ علاجه.للشيخ Ù…Ø+مد بن ناصر العريني

    3Ù€ موقف أهل السنة والجماعة من الأهواء والبدع.للدكتور إبراهيم بن عامر الرØ+يلي

  4. #4
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: ایک خطرناک كام



    ô تکفیرسے متعلق اہم ضابطے اور اُصول:

    (1) لفظ ایمان اور کفر ان شرعی الفاظ میں سے ہیں جن کا مفہوم انسان اپنی عقل اور خواہش سے متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس Ú©Û’ لئے شرعی قیود Ú©ÛŒ پابندی اور غایت درجہ اØ+تیاط ضروری ہے۔چنانچہ کتاب وسنت میں جن لوگوں Ú©Û’ کفر وفسق پر واضØ+ دلیل موجود ہے اُسے ہی کافر یا فاسق کہا جائےگا۔



    (2) کفر وشرک اور ظلم میں سے ہر ایک Ú©ÛŒ دو قسم ہے:اکبر اور اصغر، یہ وہ اہم قاعدہ ہے جو خوارج اور ان Ú©Û’ پیروکاروں پر مخفی ہے، البتہ سلف صالØ+ین Ú©Û’ نزدیک یہ واضØ+ اور معروف رہا ہے۔ چنانچہ Ø+ضرت امام بخاری –رØ+مہ اللہ – اپنی صØ+ÛŒØ+ میں فرماتے ہیں :"باب کُفران العشیر وکفر دُونَ کفر"(باب خاوندوں Ú©ÛŒ ناشکری Ú©Û’ بیان میں اور ایک کفر کا – اپنے درجہ میں – دوسرے کفر سے Ú©Ù… ہونے Ú©Û’ بیان میں )

    Ø+افظ ابن Ø+جر- رØ+مہ اللہ– لکھتے ہیں کہ قاضی ابو بکر ابن العربی اپنی شرØ+ میں فرماتے ہیں :اس قول سے مصنف یہ واضØ+ کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرØ+ طاعات Ú©Ùˆ ایمان کہا جاتا ہےاسی طرØ+ معصیت Ú©Ùˆ کفرکا نام دیا جاتا ہے ۔لیکن جس جگہ معصیت پر کفر کا اطلاق ہوگا وہاں کفر سے مُراد وہ کفر نہ ہوگا جو ملت سے نکال دینے والا ہے Û”
    [ الفتØ+ : 1/83 ]

    [الابانۃ لابن بطۃ 2/723ØŒ ملاØ+ظہ فرمائیے:براءۃ السنۃ ص:4،فتØ+ الباری: (1/83-87)،مدارج السالکین: (1/344)،اقتضاء الصراط المستقیم : (1/207)]Û”

    (3) کسی شخص معین Ú©ÛŒ تکفیر اوراس Ú©Û’ قتل کا جواز اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ اس Ú©Û’ سامنے ان دلائل نبویہ Ú©ÛŒ وضاØ+ت نہ کردی جائے جن Ú©ÛŒ مخالفت کفر تک پہونچادیتی ہے ØŒ اس لئے کہ ہر جاہل Ú©Ùˆ کافر نہیں کہا جائے گا۔

    ( مجموع الفتاوی: (3/229)۔

    (4) کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا Ø+ُکم لگانے سے قبل دو چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے :

    (الف) کتاب وسنت میں واضØ+ دلالت موجود ہو کہ یہ قول یا فعل مُوجب کفر یا فسق ہے۔

    (ب) اس عمل Ùˆ قول Ú©Û’ کہنے اور کرنے والے شخص پر Ø+Ú©Ù… لاگو بھی ہو اس طرØ+ کہ تکفیر اور تفسیق Ú©Û’ شروط اس Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں پورے ہوتے ہوں اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو Û”

    ôتکفیر (مُعین )کے شرائط:

    اہلِ سنت وجماعت اس وقت تک کسی مسلمان پر کفر یا ارتداد کا Ø+Ú©Ù… نہیں لگاتے جب تک کہ متفق علیہ اسلام Ú©Û’ منافی امور جو علماء Ú©Û’ نزدیک معروف ہیں ان میں سے کسی امر کا مرتکب نہ ہوجائے،نیزیہ بھی ضروری ہے کہ جس پر ارتداد اور کفر کا Ø+Ú©Ù… لگایا جارہا ہے ذیل میں آنے والے شرائط بھی پائے جائیں Û”

    (1) وہ شخص جاہل نہ ہو جس Ú©ÛŒ وجہ سے وہ معذور سمجھا جائے۔جیسے کوئی نیا مسلمان ہوا اور شرعی اØ+کام Ú©Ùˆ ابھی تک نہ سیکھ سکا،یا ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں اسلام کا بول بالا نہیں ہے اور قرآن Ú©ÛŒ تعلیمات قابلِ فہم انداز میں اس تک نہ پہنچی ہوں، یا وہ جس عمل کفر کا ارتکاب کررہا ہے ایسا مخفی Ø+Ú©Ù… ہو جو Ù…Ø+تاجِ بیان ہو۔

    (2) وہ مجبور نہ کیا گیا ہو کہ اپنی مجبوری Ú©ÛŒ وجہ سے صرف چھٹکارا Ø+اصل کرنا چاہتا ہے۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    )Ù…ÙŽÙ† كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَØ+ÙŽ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
    ((النØ+Ù„106)

    (جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرےبجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو ، مگر جو لوگ کھُلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب اور انہیں کے لئے بہت بڑا عذاب ہے
    )

    یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ جو شخص مجبوراً کلمہ Ø¡ کفر ادا کرے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور اس کا مقصد صرف چھٹکارا Ø+اصل کرنا ہو تو وہ کافر نہ ہوگا۔

    (3) وہ ایسی تاویل کرنے والا نہ ہو جسے وہ صØ+ÛŒØ+ سمجھ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اس Ú©ÛŒ اس غلطی Ú©Ùˆ واضØ+ کیا جائے۔

    (4) جہالت Ú©ÛŒ وجہ سے کسی ایسے شخص Ú©ÛŒ تقلید کرنے والا نہ ہو جسے وہ Ø+Ù‚ پر سمجھ رہا ہے یہاں تک کہ اس Ú©ÛŒ (جس Ú©ÛŒ تقلید کررہا ہے)Ø+قیقت Ú©Ùˆ واضØ+ نہ کردیا جائے۔

    (5) دین کا پختہ علم رکھنے والے ہی کسی Ú©Û’ مُرتد یا کافر ہونے کا Ø+Ú©Ù… لگائیں Ú¯Û’ جو ہر Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ اس کا صØ+ÛŒØ+ مقام دیتے ہیں ØŒ اس بارے میں کسی جاہل اور طالب علم Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

    خلاصئہ کلام یہ کہ صØ+ÛŒØ+ اور واضØ+ دلیل Ú©Û’ بغیر کسی مسلمان Ú©Ùˆ خارج از اسلام قرار دینا ایک خطرناک امر ہے، جیسا کہ Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ صفØ+ات میں دلائل Ú©Û’ ذریعہ اس Ú©ÛŒ خطرناکی واضØ+ ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے۔ (الغلو مظاهره Ù€ أسبابه Ù€ علاجه)

    ôتکفیر مُطلق:

    قارئین کرام!مذکورہ باتیں کسی شخص مُعین کو کافر قرار دینے سے تعلق رکھتی ہیں،البتہ جہاں تک تکفیر مُطلق کا تعلق ہےتو جو شخص اعمالِ کفریہ میں سے کسی عمل کا مُرتکب ہوگا اُسے مُطلقاً (اس کا نام لئے اور متعین کئے بغیر)کافر کہا جائے گا ۔

    مثلاً:یوں کہا جائے گا کہ جس Ù†Û’ اس طرØ+ کا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے،جوان امور میں جو اللہ Ú©Û’ ساتھ خاص ہیں یہ کام کرے وہ کافر ہے،جو غیر اللہ سے فریاد کرے وہ کافر ہے۔

    اس لئے کہ جوشخص بھی اعمالِ کفر کا مُرتکب ہوگا اس Ú©Û’ کافر ہونے پر کتاب وسنت اور سلف صالØ+ین Ú©Û’ اقوال میں دلیل موجود ہے۔

    چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    )إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ Ø£ÙŽÙ† يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ Ø£ÙŽÙ† يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ Ø+َقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً

    ((النساء150-151)

    ( جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں ۔یقین مانو یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں، اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے)۔

    نیز ارشاد ہے
    ÙˆÙŽÙ…ÙŽÙ† يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا Ø+ِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِØ+ُ الْكَافِرُونَ( (المؤمنون117)

    (اور جو شخص اللہ Ú©Û’ ساتھ کسی دوسرے معبود Ú©Ùˆ پکارے جس Ú©ÛŒ کوئی دلیل اس Ú©Û’ پاس نہیں ،پس اس کا Ø+ساب تو اس Ú©Û’ رب Ú©Û’ اوپر ہی ہے بے Ø´Ú© کافر لوگ نجات سے Ù…Ø+روم ہیں) Û”

    اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    "من مات يشرك بالله شيئا دخل النار"
    (بخاری:1283،مسلم:92)

    (جو شخص اس Ø+الت میں مرجائے کہ اللہ Ú©Û’ ساتھ کسی Ú©Ùˆ شریک کرتاہو تو ہو جہنم میں جائےگا )

    نیز آپ کا ارشاد ہے:
    " العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر"
    (اØ+مد، ترمذی،ابن ماجہ ØŒ بروایت یزید وغیرہم)

    ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے ،جس نے نماز کو ترک کردیا اس نے کفر کیا)۔

    اسی طرØ+ سلف صالØ+ین بعض اہلِ بدعت کوان Ú©Û’ کفریہ اعمال واقوال Ú©ÛŒ وجہ سے
    (اس کا نام لئے بغیر)کافر کہتے تھے۔مثلاً: قرآن اللہ کا کلام ہے جس نےاسے مخلوق کہا وہ کافر ہے اور جو اس Ú©Û’ کفر میں Ø´Ú© کرے وہ بھی کافر ہے۔اور جس Ù†Û’ تقدیر کا انکار کیا وہ کافر ہے، اسی طرØ+ جس Ù†Û’ صØ+ابہ کرام Ú©Ùˆ گالی دی وہ کافر ہے گرچہ وہ روزہ رکھے، نماز Ù¾Ú‘Ú¾Û’ØŒ اور مسلمان ہونے کا دعوی کرے،اسی طرØ+ جو Ø+ضرت علی (رضی اللہ عنہ) Ú©Û’ معبود ہونے کا اعتقاد رکھے، یا یہ کہ (اصل) نبی وہی ہیں Ø+ضرت جبریل علیہ السلام سے تبلیغ رسالت میں غلطی ہوئی،تو اس Ú©Û’ کفر میں کوئی Ø´Ú© نہیں بلکہ اس Ú©Û’ کافر ہونے میں جو توقف کرے وہ بھی کافر ہے Û”

    اسی طرØ+ جو یہ گمان کرے کہ نبی (Ú©ÛŒ وفات) Ú©Û’ بعد سوائے چند Ú©Û’ سارے صØ+ابہ مُرتد ہوگئے،اور (نعوذ باللہ )عموماً صØ+ابہ فاسق ہوگئے،تو اس Ú©Û’ کفر میں کوئی Ø´Ú© نہیں بلکہ اس طرØ+ Ú©Û’ کفر میں جو Ø´Ú© کرے وہ یقینی طور سے کافر ہے۔

    ôتکفیرِ مُطلق میں دو چیزوں کی رعایت:

    (1) اس مسئلہ میں اس بات کی رعایت ضروری ہےکہ اس (تکفیر مطلق)سے تکفیر مُعین لازم نہیں آتا اسلئے کہ آدمی کبھی کفریہ کام کرتا ہے یا اس کی زبان سے کُفریہ کلمات نکل جاتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس میں تکفیر کے شروط پائے جاتے ہوں اور اس بارے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

    (2) اس باب میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ سلف سے بعض بدعتی فرقے کی جو تکفیر منقول ہے اس کا تعلق تکفیر مطلق سے ہے ، اس سے اس فرقے کے ہر شخص کی تکفیر لازم نہیں آتی ۔

    جیسے سلف کا جہمیوں اورقدریوں کو کافر کہنا،تو اِن کو کافر کہنا اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ ہر جہمی اور ہر قدری کافر ہے۔ان کے علاوہ اور جن دوسرے فرقوں کو سلف نے کافر کہا ہے اس سے ان کے اعیان کی تکفیر لازم نہیں آتی۔

    (موقف اہل السنہ والجماعۃ من اہل الاہواء والبدع:1/185-191)

    میرے بھائیو!تکفیر مُعین کا معاملہ بڑا خطرناک ہے جیسا کہ آپ کو گزشتہ بیان سے اندازہ ہوگیا ہوگا اسلئے اس معاملہ میں جلدی نہ کریں بلکہ اس مسئلہ میں پختہ علم رکھنے والے علماء کی طرف رجوع کریں ۔بغیر علم کے کلام کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔

    اللہ ہمیں اور آپ کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
    (آمین)

    (وما توفيقي إلا بالله)



    المراجع والمصادر:

    1Ù€ تكفير المعين. للشيخ الإمام العلامة عبد الله بن عبد الرØ+من أبا بابطين

    2Ù€ الغلو مظاهره Ù€ أسبابه Ù€ علاجه.للشيخ Ù…Ø+مد بن ناصر العريني

    3Ù€ موقف أهل السنة والجماعة من الأهواء والبدع.للدكتور إبراهيم بن عامر الرØ+يلي

  5. #5
    Join Date
    Apr 2012
    Location
    Karachi/Lahore Pakistan
    Posts
    12,439
    Mentioned
    34 Post(s)
    Tagged
    9180 Thread(s)
    Rep Power
    249133

    Default Re: ایک خطرناک كام

    Jazak Allah Khair

  6. #6
    *resham*'s Avatar
    *resham* is offline بابا کی گڑیا
    Join Date
    Mar 2010
    Location
    ممہ کہ دل میں
    Posts
    40,298
    Mentioned
    32 Post(s)
    Tagged
    4710 Thread(s)
    Rep Power
    21474891

    Default Re: ایک خطرناک كام

    jazakALLAH khair....

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •