ہمارا ایمان ہے کہ ہم دنیا میں جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے ایک ”یومِ حساب“ مقرر ہے اور کوئی شخص بھی سزا اور جزا سے نہیں بچ سکے گا۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ الله تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور ہمارے اعمال پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس سے کوئی شے مخفی نہیں اور وہ دلوں کے حال بھی جانتا ہے۔ قرآن کے جدید مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یعملون میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلمی دستاویز تیار ہو رہی ہے اور یہی دستاویزی فلمیں روزِ حساب کے موقع پر پیش کی جائیں گی اور کوئی نفس اپنے اس اعمال نامے سے انکار نہیں کر سکے گا۔ ان عظیم اعتقادات کی بنیاد پر جو معاشرہ وجود میں آیا تھا اس میں خود احتسابی کا زبردست داعیہ پیدا ہوا تھا جو صدیوں تک قائم رہا اور آج بھی مسلم معاشرے میں اس کے اثرات موجود ہیں مگر دینی روح کے پژ مردہ پڑ جانے سے دنیا کی ہوس غالب آ گئی ہے اور اخلاقی حس کمزور پڑ گئی ہے جبکہ غیر مسلم معاشرے صدیوں کے تجربات کے بعد عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات سے بہت قریب دکھائی دیتے ہیں اور اُن کی زندگی کے معمولات میں وہ خوبصورتی اور اخلاقی اقدار کی وہ پابندی رچ بس گئی ہے جو الله تعالیٰ اپنے بندوں میں دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ اسلام نے جو یہ تصور دیا ہے کہ تمام کائناتوں کا حقیقی مالک اور حاکم الله تعالیٰ ہے جس نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب مقرر کیا ہے جو اس کے عطا کر دہ اختیارات امانت کے طور پر استعمال کرنے کا پابند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر منصب دار اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے حلف اُٹھاتا ہے اور الله کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کامل دیانت داری سے اور ہر نوع کے خوف یا لالچ سے بے پروا ہو کر ادا کرے گا۔
ہمارے پاکستان میں جو اسلام کے اعلیٰ ترین تصورات پر قائم ہوا تھا اور اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی تھی جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ اقتدار ایک امانت ہے اور اسے صرف عوام کے منتخب نمائندے استعمال کرنے کے حق دار ہوں گے۔ تاریخی اعتبار سے یہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دستوری دستاویز تھی مگر اس دستاویز سے پہلی بغاوت گورنر جنرل ملک غلام محمد نے کی جس نے آئین کے تحت حلف اُٹھانے کے باوجود اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپریل 1953ء میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اس وقت برطرف کر دیا جب پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے بجٹ منظور کیا تھا۔ اس حادثے میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے تنظیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن بھی سامنے آ گیا۔ خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم کے علاوہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنی برطرفی کے بعد اپنی جماعت کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں شرکت کے لیے صرف دو ارکان آئے اور باقی اقتدار کا زاویہ بدلتا ہوا دیکھ کر اپنا قبلہ تبدیل کر چکے تھے۔ اُنہوں نے بھی اپنے حلف سے روگردانی کی تھی اور سیاسی اصول داوٴ پر لگا دیے تھے۔ پھر سول اور ملٹری بیوروکریسی اور فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کی ملی بھگت سے پاکستان میں اخلاقی اور آئینی قدروں کا قتلِ عام ہوا۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی شبانہ روز کوششوں سے پہلی دستور ساز اسمبلی نے بنیادی اصولوں کی تیسری رپورٹ منظور کر لی تھی اور طے کیا تھا کہ دستور آخری خواندگی کے بعد 25دسمبر 1954کو نافذ کر دیا جائے گا مگر اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد ملک نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خاں اس غیر آئینی اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جس نے دستور ساز اسمبلی کی بحالی کے احکام جاری کر دیے مگر ایک طرف چیف جسٹس محمد منیر نے اپنے حلف کے تقاضے پامال کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد ملک کے احکام کو سندِ جواز فراہم کی اور دوسری طرف کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خاں نے اس گھناوٴنی سازش کا ساتھ دیا اور نئی کابینہ میں وزیرِ دفاع کے طور پر حلف اُٹھا لیا۔ اگر اس وقت طاقت کے ذریعے آئینی اور اخلاق اصول اور ضابطے پامال نہ کیے جاتے تو پاکستان آنے والی بلاوٴں سے پوری طرح محفوظ رہتا۔ ہمارے اربابِ اختیار نے جس جس موقع پر اخلاقی حدود سے تجاوز کیا ہے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور خوفناک بحرانوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔
دراصل سیاست کی اصل قوت اخلاقی طاقت ہے اور وہ جس قدر مستحکم ہو گی اسی قدر سیاست دان فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک سیاست ہر طرح کی چالبازی فریب کاری طاقت کے بہیمانہ استعمال اور مخالف طاقت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کا دوسرا نام ہے جبکہ صحت مند مبصرین کے نزدیک یہ اخلاق اور دانش کا اعلیٰ ترین امتزاج اور مقدس امانت اور عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت قائد اعظم نے اسے عملی زندگی میں عبادت کا درجہ دیا تھا جو اسلام کی روح کے عین مطابق تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک لارجر بینچ نے این آر او کے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے مقدمے میں جنوری 2012ء میں یہ ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں صدر اور وزیر اعظم نے اپنے حلف کی امانت میں خیانت کی ہے اور وہ اس اعتبار سے اب ”امین“ نہیں رہے۔ اس مقدمے کا قطعی فیصلہ آج سنایا جانے والا ہے جو یقینا دور رس نتیجے کا حامل ہو گا۔ ہماری سیاست میں جب تک اعلیٰ ترین عدالتوں پر عمل درآمد کا رجحان پوری قوت کے ساتھ بروئے کار نہیں آتا اور اخلاقی تقاضوں کا پورا پورا خیال نہیں رکھا جاتا اس وقت تک ہم اعتدال توازن اور خوش روی سے محروم رہیں گے۔ دراصل اقتدار الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بھی ہے اور اس کی طرف سے کڑی آزمائش بھی۔ وہ جو اقتدار سے چمٹے رہنے کی آرزو میں حد سے گزر جاتے ہیں آخر کار عبرت کا نشان بن کے رہتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرے میں اصل طاقت قانون اخلاق اور جمہوری اقدار کی ہوتی ہے۔ عزیزم احتشام ضمیر نے جو ابھی لندن سے واپس آئے ہیں اُنہوں نے اپنے کالم میں ہمارے لیے ایک عجیب و غریب واقعے کا ذکر کیا ہے کہ ایک صاحب نے برطانیہ کے ہوم سیکرٹری کا ذکر کیا جس نے اس الزام پر استعفیٰ دے دیا کہ اس نے اپنی گھریلو ملازمہ کے ویزے کی درخواست کی کارروائی کو تیز کرنے پر زور دیا حالانکہ اس خاتون کی درخواست قواعد و ضوابط کے عین مطابق تھی مگر پھر بھی میڈیا نے اسے قطار بندی کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا جو انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہے۔ ہمیں اُمید کی جانی چاہیے کہ آج کا عدالتی فیصلہ اخلاق کی بالا دستی اور انسانی حقوق کے احترام کے اعتبار سے ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔