انسان کیسے کیسے خواب دیکھتا ہے‘کیسے کیسے منصوبے بناتا ہے اور کیسی کیسی آرزوئیں دل میں پالتا ہے۔ تاریخ میں کیسے کیسے عجیب واقعات اور امثال ہیں ۔اگر انسان ان سے عبرت حاصل کرنا چاہے تو کرلے ورنہ ہوتا تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے۔ آج بہت سے ولی عہدوں کو ابھرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو تاریخ کے صفحات پر بکھری کہانیاں یاد آجاتی ہیں۔
ہمارے دور کی ایک بڑی شخصیت ایران کا شہنشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔ اس کے باپ نے ایران میں پہلوی خاندان کی حکمرانی قائم کی تھی۔ اس کے بعد رضا شاہ بادشاہ اور بعد میں شہنشاہ بنا۔ اس نے اپنا لقب آریہ مہر مقرر کیا۔ وہ اس علاقے میں امریکہ کا نمائندہ کہلاتا تھا۔ پورے خطے میں اس کا بڑا رسوخ تھا۔ ایران میں اس خطے کا سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز قائم تھا۔
شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی ملکہ ثریا تھی۔ بہت خوبصورت عورت۔ لیکن طویل عرصے تک اس کی گود ہری نہ ہوئی تھی۔ ایک عرصے تک رضا شاہ پہلوی نے انتظار کیا چونکہ اس کو اپنے تخت کے لئے ولی عہد درکار تھا اور ملکہ ثریا بانجھ حیثیت میں اس کی یہ خواہش پوری کرنے میں ناکام ہورہی تھی۔ اس لئے اس نے ملکہ ثریاکو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ایرانی قوم نے جب یہ خبر سنی تو سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی لیکن شاہ پرستوں نے اس اقدام کو سراہا کیونکہ آریہ مہر سلطنت کے تسلسل کے لئے ولی عہد کا پیدا ہونا ضروری تھا۔شہنشاہ ایران نے ملکہ ثریا کو طلاق دینے کے بعد ایک اور دوشیزہ فرح دیبا سے شادی کرلی۔ ایک سال بعد ہی ملکہ فرح پہلوی نے شہنشاہ کو ایک فرزند کا تحفہ دے دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک بیٹا اور پیدا ہوا۔ ایران میں ولی عہد کی پیدائش پر جشن منائے جاتے رہے اور شہزادہ‘ بادشاہ اور پوری ایرانی قوم کی آنکھوں کا تارہ بن کر جوانی کی منزلوں کی طرف بڑھنے لگا۔
ایک وقت آیا کہ ولی عہد جوان ہوگیا۔ اب شہنشاہ ایران کا دل پوری طرح مطمئن اور شاداں تھا لیکن یہاں سے تقدیر نے اپنا کھیل دکھانا شروع کیا۔ اس خطے میں سوویت یونین کی پیش قدمی شروع ہوگئی۔ افغانستان میں اس نے اپنے ہراول دستے بھیج دیئے۔ ادھر ایران میں بھی تودہ پارٹی مضبوط ہونے لگی۔ یہ کمیونسٹ پارٹی تھی جس کے سوویت یونین کے ساتھ بھی رابطے قائم تھے۔ اس وقت شہنشاہ ایران بیمار رہنے لگے۔ مکمل چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کو کینسر کا مرض ہوگیا ہے۔ اس خبر کے ساتھ ہی ایران کی تقدیر بدلنے لگی۔ ایران میں تودہ پارٹی اور مذہبی طبقے پوری طرح سرگرم ہوگئے۔ ایران سے عراق جلاوطن ہونے والے مذہبی رہنما امام خمینی فرانس چلے گئے اور وہاں سے ایرانی عوام کے نام انہوں نے کیسٹ پر انقلابی تقریریں بھیجنا شروع کیں۔ یہ کیسٹ پورے ایران میں پھیل گئے اور گاؤں گاؤں سنے جانے لگے۔
ایران میں بادشاہت کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور ایک وقت آیا کہ شہنشاہ ایران کو ایران کو خیر باد کہنا پڑا۔ شہنشاہ ایران اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایران سے نکلے تو ہر ملک نے ان کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔ وہ ملکوں ملکوں گھومتے جنوبی امریکہ کے ملک پانامہ میں پہنچ گئے اور پھر کچھ عرصے بعد ان کا دیار غیر میں انتقال ہوگیا ان کو مصر میں دفن کیا گیا۔شہنشاہ ایران کو اس کے تخت کا ولی عہد مل گیا تھا۔ ولی عہد جوان بھی ہوگیا تھا اور جب وہ تخت سنبھالنے کے قابل ہوگیا تو تخت ہی نہ رہا۔ تخت شہنشاہ ایران کے قبضے سے نکل کر انقلابیوں کے ہاتھوں میں چلاگیا تھا۔
شہنشاہ ایران کے اس قصے میں سبق ہے ان لوگوں کے لئے جو اقتدار کے ولی عہد پیدا کرکے اُن کو پالتے‘ پوستے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُن کے بعد اقتدار‘ ان کی اولاد کا ہوگا۔ تقدیر اور زمانہ اکثر ان لوگوں پر ہنستا ہے۔ حال ہی میں حسنی مبارک نے ولی عہد پیدا کرکے اس کو مصر کا صدر بنانے کے انتظامات کرلئے تھے۔ تقدیر ہنستی رہی۔ لیبیا میں معمر قذافی نے اپنے بیٹے سیف الاسلام کی صدارت کے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرلیا تھا لیکن ہم نے کیا دیکھا؟ اب اس کے بعد آگے آگے ہم پاکستان میں بھی ایسے اور کئی خوابوں کی کیسی کیسی تعبیریں دیکھیں گے؟ بس یہی دیکھنا ہے……!!!