رائے ، بودے پن اور موقف افلاس دلیل کا شکار ہو تو کیفیت وہی ہوتی ہے جو اس وقت سرکاری جماعت پر طاری ہے یا جس کا مظاہرہ سید زادہ ملتان فرما رہے ہیں۔ گلی محلوں کی تھڑا چوپالوں سے لے کر اسلام آباد کی عالی مرتبت محفلوں تک ایک ہی سوال روح گفتگو ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی، وزارت عظمیٰ سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں اور بے آبروئی پر مزید رسوائی کا چھڑکاؤ کیوں کررہے ہیں؟ اس لئے تو بہر طور نہیں کہ وہ عوامی مقبولیت کے بام عروج پر ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ انہیں چھیڑا گیا تو مشرق و مغرب میں ایک قیامت بپا ہوجائے گی۔ اسلئے بھی نہیں کہ پارلیمینٹ کے اندر ان کی وزارت عظمٰی کا تحفظ کرنے والوں کا کوئی آہنی حصار موجود ہے۔ حواس خمسہ رکھنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوصف ان کے اپنے عہدے پر براجمان رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ صدر زرداری یہی چاہتے ہیں۔ اس سوال کا جواب پانے کے لئے کسی افلاطونی ذہن کی ضرورت نہیں کہ صدر ایسا کیوں چاہتے ہیں۔ گزشتہ تین برس کے دوران ہر اس شخص نے رفعتیں پائیں جس نے عدلیہ کو منہ بھرکے گالی دی اور ہر وہ فرد دربار خاص کا مقرب ٹھہرا جس نے کسی عدالتی فیصلے کا تمسخر اڑایا۔
قضیے سے جڑا اگلا سوال یہ ہے کہ ”سزا یافتہ مجرم“ قرار پانے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار رکھنے کے ثمرات کیا ہیں؟ مبصرین کا اتفاق ہے کہ اس کار لاحاصل کا واحد مقصد عدلیہ کو نیچا دکھانا اور اسے یہ پیغام دینا ہے کہ تم فیصلے کرتے رہو، ہم انہیں روندتے رہیں گے۔ اسے باور کرانا ہے کہ اگر ہم نے این۔ آر۔او کے فیصلے کو نہیں مانا تو تمہاری توہین کی سزا کو بھی چٹکیوں میں اڑا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور سبب ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ یوسف رضا گیلانی ، قومی اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کے 127 ارکان میں سے ایک رکن ہیں۔ ان کا امتیاز و اعزاز یہ ہے کہ 2008ء کی فصل بہار میں جناب آصف زرداری کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی اور وزیراعظم ہوگئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں نہ بے نظیر بھٹو کہ ان کی نااہلی سے عوام آپے سے باہر ہوجائیں یا پارٹی کے اندر کوئی بھنور پیدا ہوجائے۔ وہ پی پی پی کی پارلیمانی شطرنج کا ایک بے جان سا مہرہ ہیں جسے زرداری صاحب جب چاہیں ایک خانے سے اٹھا کر دوسرے چوکھٹے میں رکھ دیں۔ باقی 126 ارکان میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کی مسند پر بٹھادینا ان کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ وہ جب چاہیں، کوئی بھی مہرہ شطرنج کے اس خوش بخت چوکھٹے میں سجاسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے طوفان بادوباراں پل بھر میں تھم جائے گا اور سیاسی فضا یکایک پرسکون ہوجائے گی۔ کوئی تحریک رہے گی نہ کوئی لانگ مارچ، نہ ہنگامہ نہ فساد۔ یہ بعد کی کہانی ہے کہ نیا وزیراعظم ، اپنے پیشرو کے ”روشن نقوش پا“ پر چلتا ہوا، قومی تاریخ میں کس نئے ”درخشاں باب“ کا اضافہ کرتا ہے۔ اگر صدر زرداری یہ آسان اور موثر سا نسخہ نہیں آز مارہے تو واحد وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وہ عدلیہ کو اس کی ”اوقات“ یاد دلانے کے درپے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ آخری قہقہہ وہی لگائیں گے۔
یہ معرکہ آرائی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب وطن عزیز ، انجن فیل ہوجانے والے طیارے کی طرح فضا میں لڑھکنیاں کھا رہا ہے۔ کراچی زخم زخم ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر داخلہ کے بقول حکومت سندھ میں شامل تینوں سیاسی جماعتیں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ لیاری قتل گاہ بنا ہوا ہے۔ لوگ اپنے بچے بغل میں لئے اور اسباب سروں پہ اٹھائے ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لاشیں مسلسل گر رہی ہیں اور لہو تھمنے میں نہیں آرہا۔ بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی شے نہیں۔ چار برس سے توانائی کا بحران شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا ہے۔ ایک سابق وزیر باتدبیر کو عدالت نے کرپشن میں ملوث پایا۔ نیب کو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ نام ۔ ای۔سی۔ ایل میں ڈالا گیا اور اگلے دن اس نے کابینہ کے وزیر کے طور پر حلف اٹھالیا۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچادی گئی ہے۔ بنگلہ دیش کل تک ہمارے وجود کا حصہ تھا۔ اسے شکایت تھی کہ مغربی پاکستان نے اسے پسماندگی میں دھکیل رکھا ہے۔ گزشتہ روز ”دی نیوز“ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، توانائی کے شدید بحران کے باعث پاکستان کی چالیس فی صد ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہوگئی ہے۔ اندازاً دو لاکھ پاور لومز وہاں چلی گئیں۔ صرف پنجاب میں دو لاکھ خاندان روزگار سے محروم ہوگئے۔ پچھلے سولہ برس سے بنگلہ دیش کی اوسطاً شرح نمو 6فی صد کے آس پاس رہی۔ وہاں کا ٹکہ پاکستانی روپے سے زیادہ قیمت پا رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھارت اور چین سے کئی تجارتی معاہدے کرلئے ہیں۔ بھارت کو راہداری فراہم کرکے وہ کروڑوں ڈالر کمانے لگا ہے۔ جس چین کے ساتھ ہماری دوستی ہمالہ سے زیادہ بلند، سمندر سے زیادہ گہری اور شہد سے زیادہ شیریں ہے، بھارت نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے اس چین کے ساتھ ایک جنگ ، دو بڑی جھڑپوں اور شدید سرحدی تنازعات کے باوجودگہرے اقتصادی اور سیاسی روابط قائم کرلئے ہیں۔ ہماری اور چین کی باہمی تجارت کا حجم صرف 9ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ چین اور بھارت کی باہمی تجارت 74 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کرچکی ہے اور 2015ء تک کا ہدف ایک سو ارب ڈالر ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان گیارہ ملاقاتیں ان کے بڑھتے ہوئے رومانس کا پتہ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کو کچھ غرض نہیں کہ ہمارے گردوپیش کیا ہورہا ہے اور ہم نے کیا بے ننگ و نام تماشے لگا رکھے ہیں۔ آج بھارتی روپیہ ہم سے ڈیڑھ گنا زیادہ قیمتی ہے۔
اس سب کچھ سے قطع نظر ایک سزایافتہ شخص ، ہر روز ایک نئی پوشاک کے ساتھ گل افشانی گفتار کے جوہر دکھا رہا ہے۔ اپنے سیاسی حریف نواز شریف کو طعنہ دیا کہ تم تو نوسال مجرم رہے ہو۔ پوچھو کس جرم میں کون سی سزا؟ کس فرعون کے عہد میں کس نام نہاد عدالت کی سزا؟ آج 34برس بعد بھٹو کی سزا کا معاملہ اس لئے سپریم کورٹ کے سامنے لاپھینکا گیا کہ مارشل لاؤں کے دوران عدالتیں آزاد نہیں ہوتیں اور بھٹو کو سزا اس حوالے سے عدالتی قتل تھا۔ اگر وہ عدالتی قتل تھا تو مشرف کی باجگزار ”عدالت“ سے ملنے والی سزا نواز شریف کے دامن کا داغ کیسے بن گئی؟ اور سید زادہ قوم کو یہ بھی بتادے کہ نواز شریف اس ”سزا“ کے بعد، بطور سزا یافتہ مجرم“ کس سرکاری عہدے پر فائز رہا؟ ارشاد ہوا کہ ”دنیا عدالتی فیصلے پر سر پیٹ رہی ہے۔“ یقینا دنیا سر پیٹ رہی ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں کوئی ایسا ملک بھی ہوسکتا ہے جہاں ایک شخص توہین عدالت کے متعین جرم کا مرتکب ہونے، سزا پانے اور ”convict“ کا داغ سیاہ ماتھے پر سجالینے کے بعد بھی وزارت عظمٰے کے منصب سے چمٹا رہے؟
عالی مرتبت سید زادہ ملتان کا سب سے لطافت آمیز اور دل کشا ارشاد یہ ہے کہ ”وزیراعظم وہی بنے گا جس کے سر پر میں ہاتھ رکھوں گا۔“ خود فریبی بھی کیسے کیسے رعونت شعار بچے جنم دیتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ عزت مآب! آپ کے سر پر کس نے ہاتھ رکھا تھا؟ کچھ عرصہ قبل تک ہمارے دوست بابر اعوان کی بدن بولی سے بھی بادشاہ گری کی ادائیں جھلکتی تھیں لیکن دیکھتے دیکھتے کس بے رحمی کے ساتھ ان کے سارے مور پنکھ نوچ ڈالے گئے۔ گورنر لطیف کھوسہ نے انہیں میر جعفر اور میر صادق قرار دیا۔ اور اب انہیں عملاً پارٹی سے خارج کرکے سر بازار چھوڑ دیا گیا ہے۔ # یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں۔
ملک وقوم کو بحرانوں کی چتا میں جھونک کر صبح وشام بے سروپا خطبات کی پھلجھڑیاں چھوڑنے والے سید زادہ ملتان کو اندازہ نہیں کہ وقت کی ایک چھوٹی سی لہر کیونکر کسی اعتزاز احسن کو بابر اعوان اور کسی بابر اعوان کو اعتزاز احسن بنادیتی ہے۔ رہی کسی کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی بات تو وزارت عظمیٰ گدی نشینی، تاج پوشی یا دستار بندی کا معاملہ نہیں کہ حضرت کسی کے سر پہ دست شفقت رکھ کے کسی خانقاہ کی سجادہ نشینی سونپ دیں گے۔ انہیں چاہئے کہ خطبات و ملفوظات کا سلسلہ چھوڑ کر اس نوشتہ دیوار کو پڑھیں جو ان کے سوا ساری قوم کو دکھائی دے رہا ہے۔