امریکی صدر بارک اوباما پیر اور منگل کی شب واشنگٹن سے بگرام ایئرپورٹ پر اترے اور ناشتہ کرنے کے بعد کرزئی کے محل واقع کابل میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے مطابق امریکہ 2014ء کے بعد مزید 10 سال تک کیلئے افغانستان میں موجود رہے گا۔ سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داریاں افغانستان نیشنل آرمی کے سپرد کی جائیں گی جس کی باقاعدہ تربیت امریکی اور نیٹو کے تجربہ کار فوجی کررہے ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ افغانستان کو ہر سال ایک بلین ڈالر کی امداد ملتی رہے گی تاکہ تعلیم و طب کے شعبے میں عوام کو ملنے والی سہولتوں میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوسکے۔ اس معاہدے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ القاعدہ کی کمر توڑ دی گئی ہے، اس کے 20 چوٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، باقی فرار ہوکر مختلف ملکوں میں چھپ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس معاہدے میں امریکی فوجی اڈوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جن میں بعض کی جدید طرز پر تعمیر بھی کی جارہی ہے۔ اس معاہدے میں طالبان سے مذاکرات کا بھی ذکر موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کے افغانستان میں امن سے متعلق بات کی گئی ہے۔
ادھر افغان طالبان نے اس معاہدے کو مسترد کردیا ہے اور پھر کہا ہے کہ ان کی نیٹو اور امریکی افواج کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ نیز طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر یہ بھی کہا ہے کہ اس معاہدے سے ان کی امریکہ اور نیٹو کی افواج کے خلاف گزشتہ دس سال سے جاری جنگ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نیز امریکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے سلسلے میں جو مذاکرات ہورہے تھے وہ بھی بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے ختم ہوچکے ہیں۔ چنانچہ اس معاہدے کے پس منظر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ افغانستان سمیت اس علاقے سے نہیں جائے گا۔ طالبان جنگ لڑتے رہیں گے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کی نیشنل آرمی امریکہ کے تعاون سے طالبان کے خلاف جنگ لڑتی رہے گی۔ نیز اس سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ امریکہ کے 2014ء میں چلے جانے کے بعد اس ملک میں خلا پیدا ہوجائے گا اور ایک بار پھر افغانستان میں موجود متحارب گروپوں کے درمیان گھمسان کی جنگ (خانہ جنگی) شروع ہوجائے گی۔ اس معاہدے نے اس امکان یعنی خانہ جنگی کے امکانات کو تقریباً ختم کردیا ہے اور یہ بھی منکشف ہوگیا ہے کہ امریکہ آئندہ کئی سالوں تک اس علاقے میں موجود رہے گا۔ مزید برآں اس معاہدے کی رو سے امریکہ اپنے فوجی اڈے (جن کی تعداد تقریباً 7 ہوسکتی ہے) قائم رکھے گا۔ کرزئی اور بارک اوباما کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر کسی علاقائی ملک یعنی پاکستان، چین اور بھارت نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ایران نے اس معاہدے کے خلاف کھل کر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے جیسا کہ ماضی میں ایران کی روایت رہی تھی۔ اس معاہدے کے سلسلے میں چین اور بھارت کی خاموشی سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ چین افغانستان میں اب تک پانچ بلین کی سرمایہ کاری کرچکا ہے، یہ سرمایہ کاری زیادہ تر معدنیات کے شعبے میں کی گئی ہے، چین کو اس شعبے میں غیرمعمولی تجربہ ہے۔ بھارت افغانستان کے انفرااسٹکچر کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کے سلسلے میں ڈھائی ارب کی سرمایہ کاری کرچکا ہے جبکہ تعمیرات کے شعبے میں بھارتی انجینئروں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی کام کررہی ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھارتی ڈاکٹروں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ بھارت نے اپنے سفارتخانے اور قونصلیٹ کے ذریعے پاکستان کے خلاف زبردست پروپیگنڈا مہم چلارکھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے یا ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کیلئے افغانستان میں اپنا مقام بنانے کے سلسلے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ دوسری طرف امریکہ القاعدہ اور طالبان کے حوالے سے خصوصیت سے حقانی نیٹ ورک کے سلسلے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے کہ ان عناصر نے شمالی وزیرستان میں پناہ لے رکھی ہے اور اسی علاقے سے یہ عناصر امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ نیز امریکہ نے ایک بار پھر شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے شروع کردیئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام پاکستانی امریکہ سے ناراض ہے اور ان ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی بھی متاثر ہورہی ہے۔ ہر چند کہ پاکستان ان ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس ضمن میں قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کی ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بھی روکی ہوئی ہے، حالانکہ اس سلسلے میں فیصلہ ہوچکا ہے اور ہمیں اس سپلائی لائن کو کھول دینا چاہئے اور امریکہ سے اس گزر گاہ کے سلسلے میں ٹیکس وصول کرنا چاہئے جس کو قبائلی علاقوں کی سماجی و معاشی سدھار کے سلسلے میں استعمال کرنا چاہئے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کو یہ سوچنا چاہئے کہ اب جبکہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک واضح معاشی و فوجی معاہدہ طے پاچکا ہے، ہمیں اس معاہدے کے پس منظر میں اپنی نئی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں میری سیاسی قیادت سے یہی استدعا ہے کہ پاکستان تنہا امریکہ کے خلاف کھڑا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کو کھڑ ا ہونا چاہئے بلکہ حکومت پاکستان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تنازعات کو اپنے قومی مفادات کے حوالے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر بنائے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ جب چین جیسا ملک افغانستان میں اپنے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر محض معاشی مفادات کی خاطر امریکہ کے ساتھ افغانستان میں ”پرامن بقائے باہمی“ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے تو پاکستان کو بھی اسی قسم کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے ورنہ ہم مسلسل خسارے کا سودا کرتے رہیں گے جو بعد میں ہمارے لئے اور زیادہ معاشی، سیاسی و سماجی مسائل پیدا کرنے کا موجب بنے گا۔