عجیب و غریب جزیرہ تھا۔اور اس سے بھی عجیب وہاں کے بسنے والے۔لگ بھگ چار سو نفوس کی آبادی تھی جن میں زیادہ تعداد جوان العمر لوگوں کی تھی ،بچوں اور بوڑھوں کا تناسب کم تھا۔مہذب دنیا نے اب تک اس جزیرے کو دریافت نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس جزیرے کے باسیوں کو باہر کی دنیا کا کچھ پتہ تھا ۔مگر یہ لوگ جنگلی نہیں تھی،ان کے رہن سہن ،بود و باش ا ورمیل جول میں وحشیانہ پن یا غیر مہذب ہونے کا شائبہ تک نہیں تھا۔جدید دنیا کی طرح یہ لوگ ترقی یافتہ تو نہیں تھے البتہ انہوں نے اپنے روز مرہ کے طور طریقوں میں کافی آسانیاں پیدا کر رکھی تھیں ۔جزیرے میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ زمین بہت زرخیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال تھی ۔اناج اگانے اورکھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کی ذمہ دار ی نوجوانوں کی تھی اور اس ضمن میں مردو عورت کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔صبح ہوتے ہی ہر کوئی کام پر نکل جاتا اور شام ڈھلے لوٹتا۔ہر گھر میں ایک جتنا ہی اناج آتا اور ایک ہی جیسا کھانا پکتا۔شادی بیاہ اور دیگر معاملات جزیرے کے بزرگ مل بیٹھ کے طے کرتے اور انہیں ماننے میں کسی کو کوئی تامل نہ ہوتا ۔یہاں ایک انوکھی دنیا آباد تھی جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ اور بے خبر تھی ۔جزیرے والوں نے کبھی سمندر کا سفر کرنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی۔وہ اپنے جزیرے میں مگن اور مطمئن تھے ۔کسی جرم کا کوئی تصور نہیں تھا اور جرم ہوتا بھی تو کس واسطے ؟ زر ،زن ،زمین پرکوئی جھگڑا ہی نہیں تھا۔چند لوگوں کے ذمے کاشت کاری کے جدید طریقے دریافت کرنے کی ذمہ دار ی تھی ،انہیں جزیرے کا سائنس دان کہا جا سکتا ہے جبکہ کچھ بزر گوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لیاہواتھا۔عورتوں وفا شعار تھیں اور مرد جفا کش،دونوں کی ذمہ داریاں برابر تھیں اور حقوق بھی۔ایک دن کسی عورت نے اپنے مرد کی شکایت کی ،شام کو بزرگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اس مرد کو اس کی غلطی سے آگاہ کیا اور اسے سمجھایا کہ اس کا یہ فعل مناسب نہیں تھا،مرد نے اپنی غلطی تسلیم کی اور عورت سے معافی مانگی ۔یہ اس جزیرے کی تاریخ کا واحد ”ٹرائل“ تھا۔جنگل کے خونخوار درندوں سے حفاظت کے لئے جزیرے والوں نے ایک ”فورس“ تیار کر رکھی تھی،اس ”فورس“ کے لوگ بار ی باری اپنی ڈیوٹی دیتے اور اس ضمن میں کبھی کوئی لکھت پڑھت نہیں کی گئی تھی۔اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر کبھی کسی نے اپنی ڈیوٹی سے انکار کیا تھا اور نہ ہی کسی کی ڈیوٹی کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔
پھر اس جزیرے کی تاریخ میں ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا ،وہ جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔کہیں سے ایک سمندری جہاز رستہ بھول کر جزیرے کے ساحل سے آ لگا۔جزیرے کے باسیوں کے لئے یہ ایک انوکھی چیز تھی ۔اس سے پہلے انہوں نے فقط سمندر سے مچھلیاں پکڑنے کے لئے ایک کشتی بنا رکھی تھی مگر جہاز کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ادھر جہاز والوں نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں جزیرے والے انہیں نقصان نہ پہنچا بیٹھیں،لنگر انداز ہوتے ہی جزیرے والوں پر بندوقیں تان لیں۔جزیرے کے سب سے بزرگ شخص نے اس ساری کاروائی کو بہت حیرت سے دیکھا ۔کپتان نے انہیں بتایا کہ اب جزیرے پر ان کا قبضہ ہے لہذا اس کے ہر حکم کی پاسداری کی جائے ۔جزیرے والوں کویہ بات بھی سمجھ نہیں آئی ۔قبضہ ،ملکیت اورحکم جیسے الفاظ ان کی ڈکشنری میں سرے سے موجود ہی نہیں تھے ۔کپتان نے انہیں حکم دیا کہ کوئی بھی شخص اس کی اجازت کے بغیر اناج لے جا سکے گا نہ اس کی تقسیم کر سکے گا۔جزیرے والوں نے اس سارے انتظام کو حیرت سے دیکھا مگر کسی نے کوئی مزاحمت کی نہ اعتراض ۔جہاز کے مسافروں میں ایک وکیل بھی تھا۔اس نے جب یہ صورتحال دیکھی توکپتان کو سمجھایاکہ جزیرے میں طاقت کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں اور پھرچند ہی گھنٹوں بعد انہیں اندازہ ہوگیاکہ دراصل انہوں نے ایک نئی دنیا دریافت کی ہے جہاں کے تصورات باہر کی دنیا سے بالکل مختلف ہیں ۔کپتان نے جزیرے والوں سے اپنے پچھلے رویے کی معافی مانگی۔
اچانک کہیں سے جہاز کا پادری نمودار ہوا اور اس نے جزیرے والوں سے ان کے مذہب کے بارے میں دریافت کرنا چاہا۔تھوڑی دیر سر کھپانے کے بعد اسے پتہ چلا کہ اس جزیرے پر کوئی عبادت گاہ ہے اور نہ ہی جزیرے والوں کا کوئی مذہب ۔ پادری کو بے حد تشویش لاحق ہوئی،اس نے فوراً انہیں مذہب کے بارے میں بریفنگ دی اور پھر جزیرے کی ایک صاف ستھری جگہ چن کر اسے عبادت گاہ قرار دے دیا۔جس وکیل نے کپتان کو طاقت کے استعمال سے روکا تھا ،پادری کے بعد اس نے بھی جزیرے والوں کو قانون ،ضابطے ،ذاتی ملکیت ،عدالت اور پولیس کے بارے میں موٹی موٹی باتیں سمجھائیں جن کا لب لبا ب یہ تھا کہ اگر وہ اس جزیرے کے لئے کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں تو اس سے ان کی زندگی آسان ہو جائے گی۔اس مرد عاقل نے یہ لطیف نکتہ بھی سمجھایا کہ جو شخص بھی قانون یا ضابطے کی خلاف ورزی کرے گا اسے سزا دینے کا اختیار عدالت کو ہوگا۔اس نے یہ مشورہ بھی دیا کہ جزیرے والے کسی شخص کو اپنا سردار مان لیں تاکہ تمام فیصلے اس کی رضامندی سے ہوں تاہم خود اس سردار کو کسی معاملے میں سزا نہیں دی جا سکے گی اور استثنی حاصل ہوگا ورنہ یہ نظام نہیں چل سکے گا۔
جزیرے والوں کے لئے یہ تمام باتیں نئی اور مسحور کن تھیں ۔پہلے پہل تو انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آئی لیکن جوں جوں انہوں نے یہ نیا تجربہ شروع کیا انہیں اس میں لطف آنے لگا ۔چند دن بحری جہاز واپس چلا گیا اورجزیرے وٰالوں نے مہذب دنیا کے طور طریقے اپنانے شروع کر دئیے۔جزیرے کا ایک سردار چنا گیا اور اس کے لئے جزیرے کے سب سے بہترین مقام پر ایک بڑا مکان تیار کیا جانے لگا ۔باقی لوگ جہاں جہاں رہ رہے تھے ،اس جگہ کی حد بندی کی گئی اور رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دئیے گئے ۔شادی بیاہ اور طلاق کے معاملات نمٹانے کے لئے ایک بزرگ کو ثالث مقرر کر دیا گیا ،جزیرے کا پہلا طلاق کا کیس اسی بزرگ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور بعد میں خود اس مطلقہ سے شادی بھی کر لی۔پادری کی ہدایات کے مطابق عبادت گاہ کا نگران بھی مقرر کیا گیا اور لوگوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ہر ماہ اپنے اناج کا کچھ حصہ اس دربان کو دیا کریں گے کیونکہ اس کا کام اب صرف عبادت گاہ کی نگرانی تھا۔پولیس کا دستہ تشکیل دیا گیا اور انہیں بھی اناج پیدا کرنے کے کام سے بری الذمہ کر دیا گیا۔ایک چھوٹی سی عدالت بھی قائم ہو گئی جو ان جرائم کے مقدمات کا فیصلہ کرنے لگی جو رقابت ،گھر اور کھیت کی حد بندیوں اور ذاتی دشمنیوں کے نتیجے میں رونما ہونے لگے تھے۔ان تمام انتظامات کے بعد جزیرے میں ایسے مرد اور عورت اقلیت میں رہ گئے جن کے ذمے سوائے اناج پیدا کرنے کے کوئی کام نہیں تھا۔لیکن اب ان کا یہ کام بہت بڑھ گیا کیونکہ نئے اداروں کے نگران اور ان کے کارندے اب کھیتوں میں جانے کی بجائے اپنے ”دفاتر“ میں بیٹھے رہتے ۔
وقت یونہی گذرتا رہا۔کئی ماہ بعد اسی بحری جہاز کا دوبارہ وہاں سے گذر ہوا ،کپتان کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ دیکھا جائے کہ اب وہ لوگ اب کس حال میں ہیں ۔جونہی وہ جزیرے پر اترا ،اسے احساس ہوا کہ یہاں اب کوئی بھی نہیں رہتا ،سارا جزیرہ سائیں سائیں کر رہاتھا۔مکانات اور کھیت تباہ ہو چکے تھے،عبادت گاہ کا نشان بھی مٹ چکا تھا۔جزیرے کے سردار کا گھر اور دیگر دفاتر بھی ملیا میٹ ہو چکے تھے ۔دور دور تک کسی زی روح کا نشان نہیں تھا۔اس نے جزیرے پر ایک آخری نگاہ ڈالی اور واپس جہاز میں سوار ہو گیا ۔شائد یہ جزیرہ تہذیب کے قابل ہی نہیں تھا ۔