یقین کیجئے! کچھ عرصہ پہلے ہمارے پالیسی سازوں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ امریکہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی غلطی پر معافی مانگنے کے لئے تیار ہے۔ پس منظر یہ بتایا گیا کہ مارچ میں امریکی سلالہ کے واقعہ پر معافی مانگنے کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن پاکستانی حکومت کی طرف سے مشورہ دیا گیا کہ فی الحال وہ معافی نہ مانگیں۔ اس کے لئے موزوں وقت کا انتظار کیا جائے۔ ہمارے حکمران یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ہم نے نیٹو کی سپلائی لائن ایک ماہ سے زیادہ بند رکھی تو امریکہ ہماری تمام شرائط قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ان دونوں واقعات کو کئی ہفتے گزر گئے۔ ہم معافی مانگنے اور ڈرون حملے بند کرنے کی شرطیں لگا کر بیٹھ گئے اور امریکہ ہے کہ نہ معافی مانگتا ہے اور نہ ڈرون حملے بند کر رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدارلیاری کی گلیوں میں تو جھانک کر دیکھ نہیں سکتے ۔ مگر امریکی لیڈروں کے ذہنوں میں جھانک کر دیکھ لیتے ہیں۔ امریکہ سے لے کر پاکستان کے گلی محلوں تک ہمارے حکمرانوں کی معلومات کا یہی عالم ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز وقت سے پہلے جان لیتے ہیں۔ دشمنوں کے ارادے بھانپ لیتے ہیں۔ دہشت گردوں کی سازشیں سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن جی ایچ کیو پر حملے کا انہیں اس وقت پتہ چلتا ہے‘ جب وہ فوجی افسروں کو یرغمال بنا کر بیٹھ چکے ہوتے ہیں یا بنوں کی جیل پر پورا جلوس لے کر حملہ آور ہوتے ہیں اور 400 سے زیادہ قیدیوں کو نکال کر ہزار افراد کے لگ بھگ جلوس لے کر بخیروعافیت واپس چلے جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہمارے حساس ادارے کے اعلیٰ افسر کی اپنی کار چوری ہو جاتی ہے اور وہ پولیس سے مدد مانگتا ہے۔ہے تو یہ رونے کا مقام مگر ہم نے اس پر ہنسنا سیکھ لیا ہے۔
میں اپنے پالیسی سازوں کی مہارتوں کے کتنے واقعات سناؤں؟ امریکہ نے جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو اس نے ہم سے مدد مانگی۔ ہمارے ماہرین نے فوراً سمجھ لیا کہ امریکہ اب شکست کھانے والا ہے۔ اسی لئے وہ مذاکرات پر آمادہ ہوا۔ لہذا اس کی ناک رگڑوانے کے لئے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ ان کے مذاکرات روک دیئے جائیں تاکہ امریکہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جائے۔ اس بات کو دو سال کا عرصہ ہو چلا ہے۔ امریکہ نے طالبان سے ہمارے ذریعے رابطے کی جو بھی کوشش کی‘ ہم نے اسے ناکام بنا دیا اور جب اس نے ہم سے چوری رابطہ کرناچاہا‘ تو ہمیں پتہ چل گیا کہ ملا برادر کے ذریعے یہ کام ہو رہا ہے۔ ہم نے ملا برادر کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا اور باور کر لیا کہ مرغا ہمارے قابو میں ہے۔ اب نہ یہ اذان دے گا اور نہ امریکیوں کے لئے سویرا ہو گا۔ امریکی پھر بھی رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دونوں میں ابتدائی مذاکرات ہوئے۔ چھوٹی موٹی شرطیں طے ہوئیں۔ لیکن طالبان کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر امریکہ ٹھٹھک گیا اور اس نے گوانتاناموبے سے جو چند قیدی چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا‘ اسے پورا کرنے میں تاخیر کر دی اور ایک طرح سے یہ طے کر لیا کہ اب افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا جو بھی سمجھوتہ کیا جائے گا‘ اس میں پاکستان اور طالبان دونوں کو شریک نہ کیا جائے۔ گزشتہ روز اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ایک سال پورا ہونے پر اچانک امریکی صدر اوباما کابل آئے اور کرزئی حکومت کے ساتھ ایک سٹریٹجک معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے میں ساری شقیں ہمارے اندازوں کے برعکس تھیں۔ ہمارے حمیدگل کہہ رہے تھے کہ امریکہ 2014ء سے بھی پہلے بھاگ جائے گا۔ مگر اس معاہدے میں امریکہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ 2014ء تو کیا اس کے بعد بھی 10 سال تک افغانستان میں رہے گا۔ اس کے اڈے قائم بھی رہیں گے اور تعمیر بھی ہوتے رہیں گے۔ ان اڈوں پر امریکی افواج تعینات رہیں گی اور جہاں طالبان کی طرف سے افغان افواج کو زیادہ خطرہ لاحق ہوا‘ وہاں امریکی افواج جنگ میں عملی حصہ بھی لیں گی اور اگر افغان حکومت کو سرحدوں کے باہر سے خطرہ ہوا‘ تو امریکہ اس میں بھی افغان فوج کی مدد کرے گا۔ اس کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ طالبان نے پاکستانی علاقوں کی طرف افغانستان کی فوجوں کے خلاف کارروائی کی‘ تو امریکہ مداخلت کرے گا۔ گویا ڈرون حملے تو مزید 10 سال تک یقینی ہو گئے۔ آخر بات کیا ہے؟ نہ تو امریکی نیٹو کی سپلائی لائن بند ہونے پر ہمارے اندازوں کے مطابق گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ نہ ہماری دھمکیاں سن کر ڈرون حملے روکتے ہیں۔ بلکہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہمیں اخلاقی اور قانونی طور پر ڈرون حملے کرنے کا حق حاصل ہے اور ہم انہیں جاری رکھیں گے۔بات پھر رونے کی ہے۔ مگر بے بسی یہ ہے کہ ہمیں اس پر بھی ہنسنا پڑے گا۔ وہی ایک سرپھرے نوکر والا پرانا قصہ جس نے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”نہیں بڑھاؤ گے تو……“ جب اس سے پوچھا گیا ”تو کیا کرو گے؟“ اس کا جواب تھا ”تو اسی تنخواہ پر کام کروں گا۔“ ہم نے امریکہ کو ڈرانے کے لئے نیٹو کی سپلائی لائن بھی بند کر دی اور پارلیمنٹ میں ڈرون حملے بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اس کے باوجود امریکیوں نے نہ سپلائی لائن کھلوانے کے لئے ہماری خوشامدیں کیں اور نہ ہی ہماری جوابی کارروائی کے خوف سے ڈرون حملے روکے۔ ہم بغیر تنخواہ جواب کے انتظار میں کھڑے ہیں۔یہ ساری باتیں میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے جو مجاہدین امریکہ سے ٹکرا جانے کے نعرے لگاتے ہیں اور سڑکوں پر دھرنے دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر انہیں امریکہ کے ساتھ طویل محاذآرائی کرنا پڑ گئی‘ تو کیا ہو گا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ عام گناہگار لوگ ہوں یا مجاہدین‘ پیسہ ہر ایک کو چاہیے۔ گولی کے لئے۔ راشن کے لئے۔ پیٹرول کے لئے۔ پانی کے لئے۔ غرض ہر وہ چیز جس کی جنگ لڑنے میں ضرورت پڑتی ہے‘ اس پر پیسہ لگتا ہے۔ ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ ملک میں یا تو کچھ پیدا نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو اسے ارباب اقتدار اور ان کے مذہبی حواری مل جل کے ہضم کر جاتے ہیں۔ حکومت اور عوام کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ہمیں باہر کے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ خاص طور پہ بجٹ بنانے کے لئے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی قرض دینا بند کر دیں اور آئی ایم ایف‘ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر مغربی ادارے ‘ امریکی دباؤ کے تحت مالی امداد دینے سے انکار کر دیں اور ہمارے برادر اسلامی ممالک جو ایک امریکی دھمکی کے آگے نہیں ٹھہر سکتے‘ وہ ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیں تو خدا لگتی کہیے کہ ہم امریکہ سے کتنی دیر تک محاذآرائی کر سکیں گے؟ پیٹرول کے بغیر۔ ڈالر کے بغیر۔ اسلحہ کے بغیراور انتہائی کڑوی کسیلی حقیقت یہ ہے کہ ہم تو لیاری کے بقول رحمن ملک دس بارہ غنڈوں پر غالب نہ آ سکے‘ امریکہ ہم سے کیوں ڈرے گا؟ سچی بات ہے لیاری کے غنڈوں نے تو پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی پہلوانوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف سونامی خان ہیں جو کئی مہینوں سے تبدیلی کے دعوے کر رہے ہیں اور حکومت کو پسپا نہیں کر پائے۔ اب نوازشریف لنگرلنگوٹ کس کے میدان میں اترے ہیں۔ ان کی للکار کو بھی ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور مزید دیکھیے کب تک وہ بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں؟ لیکن لیاری کے غنڈوں نے 8دن کے اندر اندر سول سکیورٹی فورسز کے مشترکہ حملے کو پسپا کر کے اپنا علاقہ آزاد کرا لیا۔ جو لوگ واقعی ہمارے بعض اینکرز کی طرح حکومت سے تنگ آئے ہوئے ہیں‘ اگر انہوں نے بیزاری کے دباؤ میںآ کر حکومت کی دشمنی میں لیاری کے غنڈوں کو لیڈر بنانے کا فیصلہ کر لیا تو کیا ہو گا؟ ویسے گزشتہ چند روز کے معرکوں کی کوریج کو اگر توجہ سے دیکھا جائے‘ تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ لیاری کے غنڈوں کو ہیرو بنانے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ اگر غنڈے اپنی کامیابیوں کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہے‘ تو وہ بہت جلد عمران خان اور نوازشریف کو پیچھے چھوڑ کر حکومت بیزار اینکروں اور مایوسیوں میں ڈوبے لوگوں کے ہیرو بن جائیں گے۔ بہتر ہے کہ ایسا ہونے سے قبل حکومت پلٹ کر لیاری کا مشن پورا کرے۔ اسمبلیوں کی ایک دو نشستیں جاتی ہیں تو جائیں‘ پیپلزپارٹی کو یہ مثال قائم کر دینا چاہیے کہ وہ سماج دشمن عناصر کا بہرحال خاتمہ چاہتی ہے۔ خواہ وہ اس کے اپنے حامی ہی کیوں نہ ہوں؟ غریبوں‘ مزدوروں‘ محنت کشوں اور مظلوموں کی جماعت کا غنڈہ گردی سے کیا تعلق؟ اس کی طاقت ہی اس کی مظلومی ہے۔