پوری دنیا میں آج کل پیٹرول کی قیمتیں بڑھ کر 1975ء کے عالمی بحران تک جا پہنچی ہیں۔ یورپ ، امریکہ میں تو شاید پیٹرول کے ذخائر بہت کم سطح تک گر چکے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ اسٹاک کر لیتے ہیں لہٰذا یہ ممالک اپنے ذخائر کافی حد تک بہتر بنا لیتے ہیں مگر اس سال ان ممالک کو کافی تشویش ہے کہ کہیں پیٹرول کی مانگ وہ پوری نہیں کرسکیں۔ اسی وجہ سے ان ممالک کا دباوٴ خلیجی ممالک کی طرف بڑھ چکا ہے وہ ان پر دباوٴ بھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ خود انہوں نے مل کر ان خلیجی ممالک کی پیداوار پر پابندی لگا رکھی ہے۔حالانکہ خود ان کی پیداوار پر اجارہ داری بھی ہے۔ خود امریکہ اپنی کھپت کا بیشتر حصہ اپنے ملک میں پیدا کر لیتا ہے بقایا خلیجی ممالک جس میں سعودی عرب ، کویت ، امارات ، بحرین شامل ہیں وہاں سے پوری کرتا ہے ۔وہاں بھی ان کی اپنی اجارہ داری قائم ہے اور وہ خود تیل نکال کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے اور اس کے بیشتر منافع پر اس کا کنٹرول ہے ۔ یہ خلیجی ممالک دنیا کی ضرورت کا بیشتر حصہ پیدا کرتے ہیں مگر خود ان کو اس کی اصل قیمت نہیں ملتی۔ پہلی مرتبہ 1975ء میں خود خلیجی ممالک نے اس تیل کی قیمت منوانے میں کافی زور لگایا تو قیمتیں تو بڑھ گئیں مگر پوری دنیا تیل کی سپلائی میں کمی کا شکار ہو گئی تو اس سے افرا تفری پھیل گئی ۔ تیل کی زبردست کمی (Shortage) ہو گئی، پیٹرول کا نظام درہم برہم ہو گیا مگر عالمی دنیا میں قیمتوں اور سپلائی کو خوب اچھالا اور اسی کی آڑ میں تمام اشیاء جس میں کیمیکل ، ادویات ، پلاسٹیکل ، پیپر ، سیمنٹ اور تمام بنیادی صنعتوں میں زبردست اضافے کا رحجان ہوا جو آج تک برقرار ہے۔ تمام کرنسیوں میں ایسا انقلاب آیا جو آج تک برقرار ہے ۔ پسماندہ ممالک اس کی دسترس سے باہر نہیں آسکے اس عظیم الشان نظام نے پوری دنیا کو تو اتنا نہیں متاثر کیا مگر غریب ممالک کی کرنسیوں کو زمین بوس کر دیا۔ مغربی اور امریکی کرنسیاں بے تحاشہ اوپر جاتی رہیں اور کسی کسی کرنسی کی قیمت تو 10سے 20گنا تک بڑھ گئی ۔ پاکستان جیسا غریب ملک 1975ء سے آج تک اپنی قیمت نہیں روک سکا ۔ ڈالر11روپے سے بڑھ کر آج 92روپے تک جا چکا ہے۔ ہمارے عوام کو پیٹرول کے بڑھنے اور گھٹنے سے آج تک کوئی فائدہ نہیں دیا گیا۔ اگر پیٹرول کی عالمی قیمتیں کم ہو گئیں تو بھی ہماری حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم نہیں کی مگر قیمتیں بڑھیں تو دوسرے دن ہماری حکومت نے نئے بجٹ کی شکل میں قیمت بڑھا دی۔
یہ کیسا انصاف ہے کوئی بھی آج تک یہ نہیں جان سکا کہ مشرقی پاکستان کے سیلاب پر لگنے والا امدادی ٹیکس ہماری قوم کیوں ادا کر رہی ہے۔کیا کسی نے یہ پوچھا کہ ہمارے ملک میں تو اب پیٹرول پیدا ہو رہا ہے تو ہمارے ملک میں اتنی قیمت کیوں زیادہ ہے۔ خود ایران کا پیٹرول ایرانی سرحدوں پر صرف 20روپے فی لیٹر کیوں مل رہا ہے، خود سعودی حکومت آج بھی11روپے فی لیٹر پیٹرول اپنے ملک میں اپنے عوام کو دے رہی ہے۔ ہمارے ملک میں 103روپے تو آج مل رہا ہے کل کتنے میں ملے گا اور کب ہماری قوم ملک میں پیدا ہونے والے تیل سے فائدہ اٹھائے گی یہ کسی کو نہیں معلوم۔ یورپ اور امریکہ میں اس وقت بھی پیٹرول ہمارے ملک سے کم قیمت پر دستیاب ہے ، ہماری حکومت شور مچا رہی ہے کہ دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں اس لئے ہم بھی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہیں۔ اگر ہم موازنہ کریں اور قیمتیں بڑھا کر دیکھیں تو قیمتیں اتنی نہیں بڑھیں مگر ٹیکس ، ایکسائز ، سیلز ٹیکس اتنا زیادہ ہے کہ ہماری قوم اتنے بھاری بوجھ تلے دبتی چلی جارہی ہے۔ حال ہی میں ہمارے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے فرمایا کہ ہم کو تمام صوبوں کو بھی بھاری منافع دینا پڑتا ہے مگر اس غریب قوم کو ان بھاری ٹیکسوں سے کیا سروکار ہے جو ادا کرے۔ اس کو کیا مل رہا ہے کل جب تیل کی قیمتیں پھر گر جائیں گی تو کیا ہمارے یہاں بھی قیمتیں کم کر دی جائیں گی۔ ہمارے ملک میں تیل زیادہ نکلا تو ہم نے کیا اس کو قوم کے مفادات کی خاطر کم قیمت کیا۔
ہم جمہوریت اور دوسری باتیں کرتے ہیں ہماری حکومت کے لئے یہ ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے مگر کیا ہمارے اپنے پیٹرول کے ذخائر کا کسی بھی حکومت نے تجزیہ کیا ہے کہ اگر ہم خود ان ذخائر کو زمین سے باہر نکالیں تو ہمارا ملک پیٹرول اور دوسری معدنیات میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ اگر پیٹرول کے دام بڑھے تو گیس تو ہماری اپنی ہے، بجلی تو ہم خود پیدا کر رہے ہیں، لیبر تو اتنی سستی ہے کہ ہم دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ ہم صرف اور صرف خود غرضی کی طرف جارہے ہیں ۔ پوری دنیا اپنی کرنسی کو اتنا بڑھانا چا ہ رہی ہے کہ پسماندہ ممالک کل بھی غریب رہے، صرف آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور دوسرے امداد دینے والے ممالک کو سوچنا چاہئے کہ اگر یہ ممالک غربت کے اندھیروں سے نہیں نکلے تو کل کون ان سے امداد لے گا ، کون ان کو سود دے گا، کون ان کی معیشت کو مضبوط کرے گا یہ خود ان کو سوچنا ہو گا، یہ خود ان کے لئے بہتر ہے کیونکہ پیٹرول کا کنٹرول اور قیمتیں قابو سے باہر ہو تی جارہی ہیں۔ اب تو پیٹرول کی آڑ میں ہماری قومی پیداوار گیس کی قیمتیں بھی اس کے برابر لائی جا چکی ہیں اور ہر ہفتے بجلی کے نرخ بھی اس کے حساب سے بڑھا بڑھا کر ہر چیز مہنگی کی جا چکی ہے ۔ ہمارے عوام اب تو صبر و شکر کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، ملک میں سیاسی کھیل ہر سطح پر جاری ہے۔ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کب تک جاری رہے گا۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پیٹرول، گیس، ڈیزل کی مہنگائی پر کوئی تشویش نہیں ہوئی؟