متعدد گمبھیر و پیچیدہ مسائل کے باوجود پاکستان ایک بڑا ملک ہے۔ حال ہی میں قوم نے پے در پے عدالتی کمروں اور سیاسی بساط پر رونما تبدیلیوں کے علاوہ چند دیگر المناک واقعات کا بھی سامنا کیا اس سے قبل اس قدر مایوس کن صورت حال نہیں دیکھی گئی۔ اردگرد بے شمار واقعات وقوع پذیر ہوئے جن کی وجہ سے پریشان حال صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 20/اپریل کو منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے عوامی جلسے پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی۔
جبکہ یہ صحیح شکایت کی جاتی ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، فاٹا، گلگت بلتستان میں ہونے والے بڑے واقعات حتیٰ کہ جاری دہشت گردی کے سانحات بھی میڈیا، عوام اور حکومت کی توجہ مبذول کرانے میں ناکام ہوئے ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ کے بڑے شہری مراکز میں وقوع پذیر چھوٹے اور معمولی واقعات پر فوری توجہ اور اکثر خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ آج کل بڑے اجتماعات کا انعقاد کرنا کوئی بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں اور اتحادی اگلے عام انتخابات کے لئے پیشگی اجتماعات کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ کہا جا رہا ہے کہ وقت سے قبل ہی انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے یوں انتخابات کے اعلان سے قبل ہی جماعتیں اپنی توانائیاں ضائع کر دیں گی لیکن اس سلسلے میں ایوب اسٹیڈیم میں بلوچستان بھر اور کوئٹہ میں پی ٹی آئی کا یہ پہلا بڑا عوامی اجتماع تھا۔
بلوچستان کے بلوچ اور پختون علاقوں سے وابستہ جماعتیں، صوبے میں چھوٹے اجتماعات کا انعقاد کرتی رہتی ہیں لیکن آج کل بلوچستان کے غیرمحفوظ ماحول میں کسی ملک گیر جماعت یا قومی سطح پر تسلیم شدہ پارٹی بننے کا عزم لئے پی ٹی آئی کا عوامی اجتماع کا انعقاد غیرمعمولی اقدام ہے۔ اپنی فطرت وطنیت کے مطابق عمران خان چیلنجز قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کوئٹہ میں عوامی ریلی منعقد کی بلکہ عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو بھی یقینی بنایا۔ اس سے قبل لاہور اور کراچی کے پی ٹی آئی کے جلسوں میں معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جوانوں کی بڑی تعداد نے بھرپور شرکت کی تھی۔ خواتین کی بھی کافی تعداد موجود تھی لیکن بلوچستان جیسے اعتدال پسند علاقے میں یہ سب کچھ غیرمعمولی تھا پی ٹی آئی کا کوئٹہ میں قابل تقلید عوامی جلسہ نے توجہ حاصل کرنے کے لئے ملک میں وقوع پذیر بڑے واقعات کا مقابلہ کیا۔ 17/اپریل کو بھوجا ایئر کے حادثے میں 127مسافروں کا جاں بحق ہونا، اس قسم کا واقعہ ہے کہ جب تک حادثے کی حقیقی وجوہات کا علم نہیں ہوگا۔ معاملے کا اختتام نہیں ہوگا۔ دریں اثناء 17/اپریل کو سیاچن کی برفانی بلندیوں میں دور افتاد گلگت بلتستان میں ضخیم برفانی تودے نے 138 فوجی اور شہریوں کو دبوچ لیا۔ سخت اور کھٹن امدادی کوششوں کے باوجود تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔ یوں ہماری مضبوط اعصاب کی حامل قوم نے ایک کے بعد دوسرے سانحے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی جبکہ اس اور دیگر المناک سانحوں سے فضا سوگوار رہی اور لبوں پر دعائیں رہیں۔ 10طویل برس گراؤنڈ رہنے کے بعد ایئرلائن کا لائسنس کی تجدید حاصل کرنا اور پاکستان میں نجی ایئرلائن کس طرح کام کر رہی ہیں، سے متعلق میڈیا میں ہونے والی بے لاگ بحث کو جانچنے اور عوام کے جذبات کو سرد کرنے کی امید پر حکومت نے بھوجا فضائی حادثے کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ شیخ عظمت سعید، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بجاطور پر کہا ہے کہ اگر گزشتہ معاملات پر پیش کی گئی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوا تو اب مختلف مسائل کی تحقیقات پر عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہماری ہنگامہ خیر تاریخ میں مختلف مسائل کی تحقیقات کے لئے کمیشن اور کمیٹیوں کو تشکیل دیا گیا جنہیں بعد میں بآسانی نظر انداز بھی کر دیا گیا اس قدر طویل فہرست ہے کہ شمار کرنے والے عاجز آ جائیں۔ اتحاد پر مبنی پی پی پی کی حکومت دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے ماضی کی نسبت سب سے زیادہ عدالتی کمیشن تشکیل دیئے ہیں جیساکہ بے شمار مقدمات میں ملوث حکمران طبقے کی وجہ سے سپریم کورٹ ہمیشہ ہی مصروف رہی ہے حکومت، اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کے چند فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا یوں وہ بعض اوقات ججوں کا تمسخر اڑاتی دکھائی دیتی ہے۔ بہت سے معاملات میں عدالت کے فیصلے متوقع ہیں۔ بشمول وہ فیصلہ بھی جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی قسمت کا فیصلہ ہے۔ تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ ان تمام فیصلوں کے سیاسی نتائج حال اور مستقبل پر ہو سکتے ہیں یہی وہ معاملہ ہے جس سے عوام کو لامتناہی بحث میں الجھا دیا ہے۔ ہم واپس کوئٹہ میں منعقدہ پی ٹی آئی کے عوامی جلسے کی طرف لوٹتے ہیں جہاں موسم پارٹی کے خلاف ہوگیا تھا۔ 20/اپریل کو وہاں بارش ہوئی اور ایوب اسٹیڈیم میں پانی جمع ہوگیا۔بلوچستان میں پی ٹی آئی کے صدر قاسم سوری کے مطابق یہ طے تھا کہ عمران خان جلسے سے ایک روز قبل کوئٹہ پہنچیں گے لیکن خراب موسم نے ان کی پرواز منسوخ کر دی اور وہ جلسے کے وقت ہی کوئٹہ پہنچے۔ 41سالہ قاسم سوری پی ٹی آئی کی طاقت اور قوت کی وضاحت کرتے ہیں جس نے سیاسی کارکنوں کی نئی نسل جن کا تعلق بڑے، مالدار اور معروف خاندانوں سے قطعاً نہیں ہے کو راغب کیا ہے۔ یہ افراد پاکستان تحریک انصاف کے ”پرانے“ وفادار کارکن ہیں جو بہت معروف بھی ہیں اور سابق حکومت میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور پارٹی میں اثرورسوخ کیلئے نئے آنے والوں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)