دو سال پہلے امریکہ اور پاکستان ایک طویل المدت اسٹرٹیجک شراکت رکھتے تھے۔ آج ان کے درمیان بمشکل ہی کوئی جز وقتی شراکت داری پائی جاتی ہے۔ ان کے درمیان مسائل کا آغاز گزشتہ سال فروری میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کے ساتھ ہوا اور پھر دو مئی کو امریکہ سیل کمانڈوز کا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے احاطے پر حملہ کرنا ان کے تعلقات کو مزید خراب کر گیا۔ تاہم یہ نومبر میں ہونے والا سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ تھا جس نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ہر کارروائی نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی ، حکومت کو شرمندگی سے دوچار کیا اور دفاعی اداروں نے اس خطے میں امریکہ کی طرف سے کی جانے والی یک طرفہ کارروائیوں پر رویہ سخت کر لیا۔
اب آج کے معروضی حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ہمارے پاس کیا متبادل ہیں؟امریکہ کے ساتھ گفت و شنید کے بارے میں کوئی لحہ ِ عمل طے کرنے میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے کم وبیش چھ ماہ لگادیے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ امریکی ڈرون پالیسی ہے۔ دفاعی ادارے وزیر ستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف ڈرون حملے نہیں چاہتے کیونکہ اُن کو آنے والے وقتوں میں افغانستان میں پاکستانی مفاد کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جار ہا ہے۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے عوام میں غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ انہیں پاکستانی خودمختاری اور وقار کی پامالی کے مترادف سمجھا جاتاہے۔ ایک جمہوری حکومت انتخابات کے سال میں محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے نہ دفاعی اداروں اور نہ ہی عوام کی ناراضگی مول لے سکتی ہے، چناچہ اسے امدادی پیکجز ، ایم آئی ایف کی امدادی قسط، کولیشن سپورٹ فنڈ کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے لیے ہتھیار وغیرہ حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ اسی دوران کراچی سے کابل تک کے لیے نیٹو سپلائی روٹ کھولنے میں تاخیر کی وجہ سے واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ اب یہ امریکہ میں بھی انتخابات کا سال ہے اور وہاں کے 70 فیصد عوام کی رائے یہ ہے کہ صدر ابامہ کے وعدے کے مطابق 2014 تک زیادہ تر فوجی افغانستان سے واپس آجائیں۔
تاہم افغانستان سے افواج کا انخلا اُن حالات میں ممکن نظر نہیں آرہا جس کی توقع امریکی انتظامیہ کو تھی۔ قطر میں طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات امریکہ کی طر ف سے آخری موقع پر شرائط کی تبدیلی نے ناکام بنا دیے۔سہ فریقی کمیشن ، جس میں پاکستان، افغانستان اور امریکہ شامل ہے، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہا ہے۔ طالبان کی طرف سے حالیہ دنوں کابل پر کیے جانے والے حملوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اس موسم ِ بہار میں جارحانہ کارروائیوں سے کابل حکومت کو ہلا کر رکھ دیں گے اور اس سے امریکہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ایک اور بات، امریکیوں کو کابل حکومت سے قرآن ِ پاک کی بے حرمتی کرنے اور اسے نذر ِ آتش کرنے اور ایک فوجی کی طرف سے شہریوں کے اندھا دھند قتل پر ”معذرت “ کرنا پڑی ۔ اس حالات میں ابامہ انتظامیہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے ، جس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوان شہید ہوئے، کی معذرت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے خدشہ تھاکہ رپبلیکن اس بات کا فائدہ اٹھا کر ڈیموکریٹس کو امریکی عوام کی نظروں میں گراد یں گے۔
اس صورت ِ حال میں ، خوش قسمتی سے، بھی پاکستان اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ دو طرفہ تعاون دونوں کے مفاد ات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ امریکی اس کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے ڈرون پالیسی پر نظر ِ ثانی کریں اور افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے وہاں پشتون نسل کے افغان طالبان کو سیاسی عمل میں شریک کریں۔ امریکی یہ چاہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی لائن بحال کردی جائے اور پاکستان اپنے اثرورسوخ سے افغان طالبان کو امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے رضامند کر لے۔
پاکستان کی سول ملٹری قیادت اس کوشش میں ہے کہ کوئی ایسی پالیسی وضع کی جائے جس کے تحت نیٹو سپلائی لائن بھی کھول دی جائے، ڈرون حملوں کو محدود کر دیاجائے، امریکی خفیہ اداروں کی پاکستانی سرزمین پر کارروائیوں کو روک دیا جائے تاکہ پاکستانی عوام اور اپوزیشن کی کچھ ”تسلی“ ہو جائے اور امریکہ سے مالی اور فوجی امداد لینا ممکن ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکیوں کے دل سے حقانی نیٹ ورک کے بارے میں خدشات کو رفع کیا جائے۔ اپنے لوگوں کی تشفی کے لیے اب اُنھوں نے کہنا شروع کردیا ہے (گو کہ خاصی تاخیر سے) کہ ایک سال پہلے بن لادن کے خلاف کی گئی کارروائی یک طرفہ نہیں تھی بلکہ ، جیسا کہ کچھ خفیہ اداروں کے افسران اور پاکستانی وزیر ِ دفاع کے انٹرویو ز سے یہ بات سامنے آئی ہے،اسے حکومت ِ پاکستان کا تعاون حاصل تھا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک فوج اس کی پر زو ر حمایت کرے اور عوامی سطح پر اس کا اعلان بھی کرے۔ اس سے پہلے حکومت کو تمام معاملات یک طرفہ طور پر اپنے سر لینا پڑتے تھے۔ اس کے علاوہ اس نازک موڑ پر اسے زرداری حکومت کو عدلیہ اور اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں سے بھی بچانا چاہیے کیونکہ اس مرحلے پر اگر حکومت میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ابھرنے والے امکانات کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں آرمی چیف جنرل کیانی نے بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں ۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ دفاعی اداروں کی طرف سے حکومت کے معاملات میں مداخلت پاکستانی سیاست کی ایک حقیقت ہے ۔
امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تعطل ختم کرنے کے لیے دوطرفہ تعاون کی راہ نکالنا ہوگی۔ اسے پاکستانی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی پالیسی کو قابل ِ قبول حد تک لے جانا ہو گا۔ یہ امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان مل کر افغان طالبان کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کے لیے مذاکرات پر آمادہ کرتے ہیں۔ امریکہ کو ایسے اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے خود طالبان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی ضد چھوڑ دینی چاہیے ،کیونکہ ایسا کرتے ہوئے وہ اسلام آباد اور کابل کے اعتماد کو کھو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کی ذمہ داری سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ سب سے آخر میں مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر وہ کابل کے ساتھ اتنی فیاضی سے کام لے رہے ہیں تو اسلام آباد کے ساتھ اتنی کنجوسی کیوں؟