ہمفرے کے دلچسپ اعترافات کا ذکر کرنے سے پہلے میںآ پ کی توجہ ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والی خبر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو لندن سے ریاض ملک صاحب نے ارسال کی ہے۔ آج سے دس سال قبل سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تاکہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ”را“ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ ملنے آئے۔ ان کا تعلق کتاب اور تحقیق سے ہے۔ باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں سنڈے ٹائمز کی خبر پڑ ھ رہا تھا تو مجھے ”ہمفرے کے اعترافات“ کا ایک صفحہ یاد آگیا۔ آپ بھی پڑھئے ”میں چھٹی پر لندن گیا ہوا تھا۔ نو آبادیاتی امور کے خصوصی کمیشن کی مرضی کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے۔ جن سے صرف چندایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی (1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت (2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل (3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ (4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں ہمفرے کے شکار کا ذکر کیا تھا جسے برطانوی وزارت نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ہمفرے نے اس سے گہری دوستی قائم کرلی اور باتوں باتوں میں اسے ٹٹولنے اور اپنے جال میں پھنسانے لگا۔ ایک دن ہمفرے نے اس سے پوچھا ”عورتوں کے ساتھ متعہ جائز ہے؟“ جواب تھا ہرگز نہیں۔ پھرہمفرے نے بہت سی دلیلیں دے کر اسے خاموش کر دیا اور وقفے کے بعد پوچھا کیا تم متعہ کے ذریعے زندگی پرمسرت بنانا چاہتے ہو؟ اس نے رضا کی علامت سے سر جھکا دیا۔ ہمفرے نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا اور میں تمہارے لئے انتظام کروں گا۔ پھر ہمفرے اسے ایک بدقماش عورت کے پاس لے گیا جو برطانوی وزارت نوآبادیاتی کی طرف سے بصرہ میں عصمت فروشی کا اڈا چلاتی تھی اور مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارتی تھی۔اس کا جعلی نام صفیہ تھا۔ ہمفرے اپنے شکار کو اس کے پاس لے گیا اور ایک اشرفی مہر پر ایک ہفتے کے لئے صفیہ سے اس کا عقد کردیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ اپنے شکار کو صفیہ کے جال میں پھنسانے کے بعد ہمفرے نے اسے شراب پر آمادہ کرنے کے لئے تاویلیں دیں کہ صرف وہ شراب منع ہے جو نشہ آور ہو، یادِ خدا او ر نماز سے باز رکھے۔ چنانچہ شراب میں پانی ملا کر پینا جائز ہے۔ ہمفرے نے اپنی سازش سے صفیہ کو بھی آگاہ کر دیا جو اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بندوبست کرنے لگی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے وزیر نوآبادیاتی علاقے کی بات یاد آئی جو اس نے الوداع کے وقت کہی تھی ”ہم نے اسپین کو مسلمانوں سے شراب اور جوئے کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا۔ اب انہی دو طاقتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کو پامردی کے ساتھ واپس لینا ہے“
مختصر یہ کہ ہمفرے دن رات اپنے شکار کے ساتھ رہنے لگا اور مسلسل رپورٹ اپنی وزارت کو بھجواتا رہا جس کی تصدیق وزارت براہ راست صفیہ سے بھی کرتی تھی اوردوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بھی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ پھرایک دن اس نے ایک جھوٹا خواب گھڑا۔ اپنے شکار کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور اسے مذہبی فرقہ بندی پر مائل کرلیا۔ واضح رہے کہ میں نہ ہمفرے کے شکار کا انکشاف کر رہا ہوں نہ اس خواب کی تفصیلات کا اور نہ ہی اوپر بیان کئے گئے دینی امور کا میرے اعتقاد سے کوئی تعلق ہے۔ میں تو فقط دامن بچا بچا کر آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہمفرے نے اپنے نشانے پر کس طرح تیر چلائے۔
اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ نجف میں وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا بالآخر تین ہفتوں بعد افاقہ ہوا تو بغداد چلا گیا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔
عراق سے متعلق رپورٹ نے وزارت کے دل جیت لئے ”چنانچہ مجھے لندن بلایا گیا کہ میں وزارت کے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وزارت نے کچھ افراد کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا ان کی رپورٹوں نے میرے طرز ِ عمل اور معلومات کی تصدیق کی تھی۔ وزیر میرے شکار کے قابو آنے پر بہت خوش تھے۔
انہوں نے میرے شکار کے ساتھ عبدالکریم نامی شخص کو لگا دیا تھا جو اسے اصفہان میں ملا، گہری دوستی گانٹھ لی وغیرہ وغیرہ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ جب وہ چھٹی پر لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا (1) شیعہ سنی اختلافات (2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات (3) قبائلی اختلافات (4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں (5) جہالت اور نادانی کی فراوانی (6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا (7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب (8) حکمرانوں کے مظالم (9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان (10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان (11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی (12) عورتوں کی تحقیر (13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔ مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز ِ زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔ میرے دوست الفت صاحب کا خیال ہے کہ یہ کتاب مصدقہ نہیں جبکہ لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔حقیقت کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور یہ کہ مسلمانو ں کا اصلی دشمن مذہبی فرقہ واریت، انتہاپسندی، جہالت، جمود اور قرآن و شریعت سے دوری ہے اسلئے اگر کوئی شخص شیعہ سنی اختلافات کی آگ بھڑکانے یا مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!! ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔