سندھ اسمبلی میں اگلے روز صوبے میں امن وامان کی صورت حال پر بحث کرتے ہوئے متعدد ارکان نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کی کہ جب تک پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت جاری رہے گی اور سفارش کی بنیاد پر تبادلے و تقرریاں ہوتی رہیں تو امن وامان قائم کرنا تب تک ممکن نہیں ہے۔ ان ارکان نے کراچی میں مسلسل ڈھائی عشروں سے جاری دہشت گردی اور بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہاکہ یہ صورت حال پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت کے باعث پیدا ہوئی۔ اُنہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ پولیس کو فری ہینڈ دیا جائے تاکہ وہ امن قائم کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی کے مطابق کام کرسکے۔
ایک زمانہ تھا‘ جب سیاستدان اور منتخب نمائندے پولیس کو قانون میں دیئے گئے اختیارات پر اعتراض کرتے تھے اور پولیس کو ”لگام“ دینے کا مطالبہ کرتے تھے۔ لیکن وقت کے دھارے نے بہت سی غلط فہمیاں دور کردی ہیں اور آج عوام کے منتخب نمائندے پولیس کو فری ہینڈ دینے کی بات کررہے ہیں کیونکہ دہشت گردی‘ شرپسندی اور بدامنی نے لوگوں کو سیاسی نعروں سے ہٹ کر حقائق کی طرف پلٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ منتخب نمائندوں کو پتہ ہے کہ ملک کے داخلی امن کو قائم کرنے کے لیے فوج یا نیم فوجی اداروں کو عوام کی مد مقابل نہیں لایا جاسکتا۔ پولیس واحد سول فورس ہے‘ جو یہ کام بہتر طور پر کرسکتی ہے۔
اگلے روز سینیئر پولیس آفیسر جاوید اقبال صاحب سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی‘ جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اُن سے بھی اس معاملے پر بات ہوئی۔ اُن سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ لوگوں کی سوچ میں یہ تبدیلی کیسے آئی تو اُن کا کہنا تھا کہ حقائق سے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہا جاسکتا۔ اُنہوں نے ارکان سندھ اسمبلی کے موٴقف کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ اگر سیاسی دباؤ اور سفارشیں بند نہیں ہوں گی تو پولیس کے لیے امن وامان قائم کرنا مشکل ہوگا‘ جو ہر حال میں اُسی کی ذمہ داری ہے۔ پولیس والے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرتے ہیں۔ پھر اچانک کہیں سے یہ دباؤ آجائے کہ خطرناک دہشت گردوں اور مجرموں کو رہا کردیا جائے تو پھر پولیس کی ساری کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ بات زور دے کر کہی کہ قیام امن کے لیے جو رزلٹ پاکستان کی پولیس دے سکتی ہے۔ وہ دنیا کی کوئی پولیس نہیں دے سکتی ہے۔ امن وامان کو ٹھیک کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت نہ ہو۔ اُن کی یہ بھی رائے تھی کہ سفارش کلچر نے نہ صرف پولیس کو کمزور کیا ہے بلکہ ہر جگہ جرائم پیشہ عناصر‘ دہشت گرد اور مافیاز کو مضبوط کیا ہے۔
گفتگو کے دوران میں یہ سوچ رہا تھا کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا ایک حل یہ ہے کہ صاحبان اقتدار پولیس کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ یہ بات ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کیونکہ لوگ پولیس کو اپنی سیاسی طاقت میں اضافے اور اس طاقت کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسئلے کا دوسرا حل یہ ہے کہ پولیس میں ایسے لوگ موجود ہوں‘ جو باکردار اور نڈر ہوں اور وہ اپنی کمان میں کام کرنے والی پولیس فورس کو موجودہ حالات میں ایسے مواقع فراہم کریں کہ پولیس کسی دباؤ کے بغیر کام کرسکے۔ ایسے پولیس افسران میں ایک جاوید اقبال صاحب بھی ہیں۔ یہ بات میں نے اُن کے منہ پر نہیں کہی کیونکہ یہ چیز خوشامد کے زمرے میں آتی ہے لیکن مجھ سمیت بے شمار لوگ ایسے ہیں‘ جو موجودہ ڈی جی‘ ایف آئی اے جاوید اقبال کی بطور پولیس افسر اہلیت‘ قابلیت اور دیانتداری سے واقف ہیں۔ وہ کراچی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔ تب سے اُن کے ساتھ یاد اللہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف مشکل ترین آپریشنز میں ایک بہادر کمانڈر کے طور پر پولیس کی قیادت کی۔ اپنے ماتحت افسروں اور اہلکاروں کے ساتھ اُن کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا ہے۔ پولیس افسران اور جوان اُن کی ساتھ بہت آرام میں رہتے ہیں اور اپنا دکھ سکھ اُن سے شیئر کرتے ہیں۔ جاوید اقبال صاحب میں یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ میرٹ کا بہت خیال کرتے ہیں۔ ویسے تو وہ اپنے تمام ماتحت افسروں اور جوانوں کی ساتھ بہت شفیق ہوتے ہیں لیکن قابل اور اہل افسروں اور جوانوں کو میرٹ کے مطابق آگے بڑھانے میں بہت مدد کرتے ہیں۔ اُن کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ اقرباء پروری اور کرپشن کے آگے سینہ سپر ہوجاتی ہیں۔ اُن کا ماضی بے داغ ہے۔ اُن کا پورا کیریئر کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ اگر اُن کے کام میں مداخلت نہ کی جائے تو وہ بہترین نتائج دینے والے افسر ہیں۔ ویسے بھی ہم نے اُنہیں کئی مواقع پر بیرونی مداخلت کے آگے مزاحمت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ اس مزاحمت میں اُنہیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اُن کی اہلیت اور دیانتداری پر کسی نے اُنگلی نہیں اُٹھائی۔ ہم نے اُنہیں جرائم عناصر‘ دہشت گردوں اور مافیا گروہوں سے ٹکراتے ہوئے بھی دیکھا ہے لیکن کبھی اُنہیں گھبرایا ہوا نہیں دیکھا۔
جاوید اقبال جیسے افسروں کی صلاحیتوں‘ جرأت اور تجربے سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ پورے ملک میں جاوید اقبال جیسے اور بھی بہت سے افسران ہیں۔ آئی جی اسلام آباد بن یامین بھی ایک ایسے افسر ہیں‘ جو انتہائی فرض شناس‘ بہادر اور ایماندار افسر کے طور پر پولیس میں جانے جاتے ہیں۔اصل بات وہی ہے کہ پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ پولیس کے افسروں اور جوانوں نے پاکستان میں ہر جگہ ملک کے داخلی امن کی لیے عظیم قربانیاں دیں۔ پولیس کی قربانیاں پاکستان کی کسی بھی فورس سے زیادہ ہیں۔ اب ریاستوں کے مابین جنگوں کی شدت سرحدوں پر کم ہورہی ہے اور اب یہ جنگیں ملکوں کی جغرافیائی حدود کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ دشمن ممالک اپنے کارندوں کے ذریعے اپنے مخالف ملکوں کے اندر سبوتاژ کی کارروائیاں کرکے بدامنی پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن پاکستان کی سرزمین پر اپنے خطرناک نیٹ ورک قائم کرچکے ہیں۔ نام نہاد سیاسی اور غیر سیاسی مافیا گروپس کے ذریعہ وہ یہ نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ دشمن افواج کے مقابلے میں ان نیٹ ورکس کے خلاف آپریشنز بہت مشکل ہیں کیونکہ یہ شہری آبادیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور یکجہتی کے خلاف سرگرمیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان دشمن عناصر کو بیرون ملک سے جدید اسلحہ اور مالی امداد کی فراہمی بھی اب کوئی راز نہیں رہی ہے۔ فرقہ ورانہ‘ مذہبی‘ لسانی اور نسلی گروہوں کے ذریعہ پاکستان دشمن ملکوں کے نیٹ ورکس انتہائی بے رحمی کے ساتھ پاکستان کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ اب پاکستان کے داخلی امن صرف امن وامان کے مقامی مسئلہ نہیں رہا ہے۔ کراچی سے سوات تک پاکستان کی مخالف عالمی طاقتیں پاکستان کی سرزمین پر جنگ لڑرہی ہیں۔ اس جنگ میں فوج کو استعمال کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اب ساری ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں اور سیاستدانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا کہ وہ پولیس کے کام میں مداخلت سے توبہ کرلیں۔ پولیس میں سیاسی تبادلوں اور تقرریوں کا سلسلہ بند کردیا جائے۔ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ جاوید اقبال اور بن یا مین جیسے پولیس افسران جو کام کرنا چاہتے ہیں‘ اُنہیں وہ کام کرنے دیا جائے۔