حکومت گرانے اور حکومت بچانے کے لئے جلسے جلوس شروع ہو چکے ہیں۔ نواز شریف نے ٹیکسلا میں بڑا جلسہ کیا اور عمران خان نے اسلام آباد میں بڑا جلوس نکال دیا۔ دونوں زرداری حکومت کے خلاف ہیں اور ایک دوسرے سے بھی برسرپیکار ہیں۔ تیسری طرف یوسف رضا گیلانی ہیں جو نواز شریف اور عمران خان کے اختلافات کے باعث خود کو مطمئن قرار دے رہے ہیں لیکن عام پاکستانی قطعاً مطمئن نہیں۔ حکومت عوام کو مطمئن نہیں کر سکتی تو کم از کم پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے غلط ثابت ہونے پر تو کچھ بولے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت 3 مئی کو امریکی حکومت کے جاری کردہ خطوط ایبٹ آباد پر ابھی تک کیوں خاموش ہے؟ خطوط ایبٹ آباد نے پاکستان کے ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے کئی سنگین الزامات کو غلط قرار دے دیا لیکن شائد حکومت گرانے اور بچانے کے لئے جلسے جلوس کرنے والوں کو پاکستان کی ساکھ سے کوئی غرض نہیں ہے۔ امریکی فوج نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی رہائش پر حملے میں چھ ہزار سے زائد دستاویزات قبضے میں لی تھیں۔ امریکہ کے مختلف اداروں نے ایک سال تک ان دستاویزات کا عربی سے انگریزی میں ترجمہ کیا اور مختلف پہلوؤں سے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد 3 مئی 2012ء کو 17 خطوط جاری کر دیئے۔ اُسامہ بن لادن کی طرف سے اپنے ساتھیوں کے نام لکھے گئے ان خطوط کو یو ایس ملٹری اکیڈمی کے انسداد دہشت گردی ادارہ کے سربراہ جنرل (ر) جان ابی زید کے دستخطوں اور بیان کے ساتھ جاری کیا گیا۔ 127 صفحات پر مشتمل 17 خطوط جاری کر کے امریکی حکومت نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ اُسامہ بن لادن پاکستان کے خفیہ اداروں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور جنرل جان ابی زید بھی یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان کا کوئی ادارہ اُسامہ بن لادن کی مدد نہیں کر رہا تھا لیکن ہمارے ارباب حکومت نے ابھی تک ان 127 صفحات کو پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک لیاری میں ایک ناکام آپریشن کی خفت مٹانے کے لئے میڈیا پر برس رہے ہیں۔ وہ کراچی کے تمام مسائل کی جڑ لیاری کو قرار دینے کے لئے ایک اور آپریشن کی تیاری میں مصروف ہیں اور پچھلے آپریشن کی ناکامی میں میڈیا کا ہاتھ تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بہت جلد لیاری میں طالبان، لشکر جھنگوی، القاعدہ اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی موجودگی ثابت کر دیں گے۔ کاش کہ رحمان ملک صاحب نے بھی امریکی حکومت کے جاری کردہ خطوط ایبٹ آباد پڑھ لئے ہوتے تو انہیں پتہ چلتا کہ القاعدہ کی قیادت پاکستانی طالبان سے خوش نہیں تھی اور ان دونوں کا کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عزیز بلوچ کے ساتھ مل کر پولیس کے خلاف مزاحمت کرنا ناقابل یقین ہے۔ رحمان ملک کو چاہئے تھا کہ وہ میڈیا کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دینے کی بجائے خطوط ایبٹ آباد پر پریس کانفرنس کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ امریکی حکومت نے خود ہی پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کر دی ہے لیکن شائد ان کے لئے میڈیا پر الزامات لگانا زیادہ اہم تھا اس لئے انہوں نے امریکی حکومت کی جاری کردہ اس دستاویز کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ سازشی مفروضوں پر زندگی گزارنے والے اس دستاویز کو بھی اصلی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر ہمیں حقیقت کی دنیا میں رہنا ہے اور حقیقت کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے تو خطوط ایبٹ آباد کے بغور مطالعے اور تجزیئے کی ضرورت ہے۔
خطوط ایبٹ آباد دو سازشی مفروضوں کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں۔ پہلا سازشی مفروضہ گیارہ ستمبر 2001ء کے فوراً بعد پھیل گیا تھا۔ اس سازشی مفروضے کے حامل افراد کی اکثریت کا تعلق پاکستان کے ایسے طبقے سے تھا جن کا خیال تھا کہ گیارہ ستمبر 2011ء کو نیو یارک اور واشنگٹن میں حملوں کے پیچھے القاعدہ نہیں تھی بلکہ یہ حملے یہودیوں نے کرائے تھے۔ ان حملوں کے چھ ہفتے بعد مجھے افغانستان میں اُسامہ بن لادن، ڈاکٹر ایمن الظواہری اور ان کے کئی ساتھیوں سے ملنے کا موقع ملا اور ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے کھوج لگانے کی کوشش کی کیا واقعی گیارہ ستمبر کے حملوں میں القاعدہ ملوث تھی؟ مجھے یہ پتہ چلا کہ یہ حملے اُسامہ بن لادن نے منظم کئے تھے لیکن وہ فوری طور پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر کے افغانستان میں طالبان کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں اُسامہ بن لادن نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں گیارہ ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی لیکن سازشی مفروضوں کی بنیاد پر سیاست اور صحافت کرنے والے اس ویڈیو پیغام کو بھی جعلی قرار دیتے رہے۔ خطوط ایبٹ آباد نے ثابت کر دیا کہ اُسامہ بن لادن ناصرف گیارہ ستمبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے بلکہ وہ گیارہ ستمبر سے بھی بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے۔
خطوط ایبٹ آباد نے اس سازشی نظریئے کو بھی رد کر دیا کہ 2/ مئی 2011ء کو اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی تین بیویوں اور بچوں کے ساتھ واقعی ایبٹ آباد میں ایک خاموش زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے جان بوجھ کر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریب واقع علاقے بلال ٹاؤن میں رہنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آئے کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص ایبٹ آباد میں چھپ سکتا ہے۔ خطوط ایبٹ آباد سے یہ تو واضح ہو گیا کہ اُسامہ بن لادن 2006ء سے 2011ء تک ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کی خفیہ مدد کے بغیر روپوش تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی کہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی سمیت دیگر اداروں پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں یہ ادارے بڑی صفائی سے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کر کے آئی جے آئی بنانے اور حکومتیں گرانے میں تو بڑی مہارت رکھتے ہیں لیکن اُسامہ بن لادن کم از کم پانچ سال تک پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پاس چھپا رہا۔ وہ یہیں سے یمن اور صومالیہ میں اپنے ساتھیوں کو پیغامات بھیجتا تھا اور امریکی صدر بارک اوبامہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا لیکن ہمارے خفیہ اداروں کو کچھ پتہ نہ چلا۔ خطوط ایبٹ آباد سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ کمزور ہو چکی ہے لیکن بدستور خطرناک ہے لیکن امریکہ کے لئے خطرناک ہے پاکستان کے لئے خطرناک نہیں ہے۔ پاکستان کے لئے طالبان زیادہ خطرناک ہیں۔ 3 دسمبر 2010ء کو القاعدہ کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے نام لکھا جانے والا خط بڑا اہم ہے جس میں طالبان کو ایسے حملوں سے پرہیز کے لئے کہا گیا ہے جن میں بے گناہ شہری مارے جاتے تھے۔ ایک اور جگہ پاکستان میں اہل تشیع پر حملوں پر ناگواری کا اظہار کیا گیا ہے۔ عراق میں مسیحیوں اور ان کے گرجا گھروں پر حملوں کو بھی غلط قرار دیا گیا۔ اُسامہ بن لادن چاہتے تھے کہ صرف امریکہ کی فوجی اور معاشی طاقت پر حملہ کیا جائے اور اپنی نئی حکمت عملی کی وضاحت کے لئے انہوں نے کچھ امریکی، کینیڈین، برطانوی، عرب اور پاکستانی صحافیوں سے رابطے کا فیصلہ کیا تھا جن میں میرا نام بھی شامل تھا۔ مجھے ”نیو یارک“ کے سینئر صحافی سیمور ہرش کا نام خطوط ایبٹ آباد میں دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کیونکہ وہ یہودی ہیں اور القاعدہ کے بہت بڑے ناقد ہیں لیکن اُسامہ بن لادن صرف ایسے صحافیوں سے رابطہ رکھنا چاہتے تھے جو بیشک ان کے ناقد ہوں لیکن اپنے پیشے سے مخلص ہوں اور کسی خفیہ ادارے کے وفا دار نہ ہوں۔ خطوط ایبٹ آباد نے پاکستان کے خفیہ اداروں کے متعلق امریکی اور بھارتی میڈیا میں پھیلائے گئے سازشی مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ان خفیہ اداروں کو چاہئے کہ اب القاعدہ اور طالبان کو ایک نظر سے دیکھنا بند کریں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نئی حکمت عملی اختیار کریں۔ اس نئی حکمت عملی میں اپنے لوگوں کو بغیر ثبوت اور مقدمے کے غائب کرنا اور قتل کرنا بند کر دیں کیونکہ ہمارے خفیہ اداروں کی تشدد پسندی پاکستان میں ایسی سوچ اور ردعمل پیدا کر رہی ہے جو طالبان اور القاعدہ سے زیادہ خطرناک ہے۔