مشہور ترقی پسند شاعر جاں نثاراخترکا ایک مشہور شعر ہے:
بے کسی حد سے جب گزر جا ئے
کو ئی انساں جئے کہ مر جائے
یہ کیفیت مجبوری اور بے بسی میں ہر انسان کو محسوس ہوتی ہے، زیادہ تر لوگ بوجہ مجبوری خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور شاعر اپنی قوّت اظہارسے اُسے عوام تک پہنچاتا ہے۔ مختلف شعرا نے اپنے اپنے انداز میں اسے بیان کیا ہے مثلاً شاد عظیم آبادی نے لکھا ہے:
بڑامشکل ہے انساں کے لیے مجبور ہوجانا
زمیں کا سخت ہوجانا ، فلک کا دور ہو جانا
جگر مرادآبادی نے اپنے انداز میں کہا ہے۔
ہائے یہ مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیاکریں
غالب نے اس عا لم میں بہتری کی توقع ظاہر کی ہے:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گاکچھ نہ کچھ گبھرائیں کیا
ہمارا ملک اور قوم اس وقت انتہا ئی پریشان حالی کاشکار ہے یہ وہ ز بوں حالی نہیں ہے جس کا ذکر ہمارے سیاست داں اپنی تقریروں میں کرتے رہتے ہیں جیسے،” ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے“ ،”ملک اس دقت سازشوں کا شکار ہی“، ”ملک حالت جنگ میں ہے“ وغیرہ لیکن یہ تقریریں کرنے والے خود ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور عوام کے سامنے بیانات دے کر پھراپنے کاموں میں جواُن کی پارٹی، یا حکومت یا ذات کے مفادمیں ہوں انھیں زیادہ شدّومد سے انجام دینے لگتے ہیں۔علاّمہ اقبال آج سے اَسّی سال پہلے تنبیہ کرتے رہے مگر ان کی ہدایت صرف کتابوں کی زینت بن گئی:
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
آج حکمراں جماعت یا دو سری حلیف یا حریف جماعت کو کیا وا قعی و طن کی فکر ہے؟ اخبار پڑ ھیےٴ، ٹی وی دیکھئے یا تبصرہ سنیے تو غریب عوام مہنگائی، لو ڈشیڈنگ یا گیس کی کمی کیلئے بلاک کر رہے ہیں،مظاہرے ہورہے ہیں توڑپھوڑ ہورہی ہے، مختلف علاقوں میں امن و امان کی خرابی کے باعث لوگ مارے جا رہے ہیں، حملہ آور نامعلوم قرار دئیے جا کرکبھی دہشت گردی کبھی اس کو فرقہ وارانہ فساد کا نام لیا جاتا ہے اورخودکش حملہ قرار دئیے جانے سے تو جیسے حکومت کو کلین چٹ مل جاتی ہے کیونکہ مزید تحقیقات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اظہار مذمت کیا جاتا ہے یا صرف نوٹس لے لیا جا تا ہے۔ ا یک طرف عوام بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے نالاں سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ بجلی پیدا کرنیوالے تیل و فنڈ کی کمی اور لاتعداد سرکاری اداروں کی بلوں کی عدم ادائیگی کی شکایت کر رہے ہیں اور دوسری جانب وزرا کی فوج میں اضافہ کیا گیا ہے معاشی بحران ہے مگر سدابرت کھلا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کرایہ پر لینے والے بجلی گھروں کو رشوت لے کر اربوں روپیہ پیشگی دیدیے گئے ہیں کچھ رقم تو سپریم کورٹ نے اور کچھ نیب نے واپس لے لی ہے۔ حکومت جس کا کام مسائل کو حل کر نا ہوتا ہے خود روز نت نئے مسائل کھڑاکرکے عوام کو ان میں اُلجھائے رکھتی ہے۔ نئے صوبوں کی بات ہورہی ہے اصولی طور پراس سے انتظام حکومت بہتر ہونا چاہے مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ مزید سیکڑوں وزرا کی بھرتی ہوگی اور مصارف اور رشوت ستانی میں بہت اضافہ ہوگا۔ ترقی یافتہ اور تعلیمیافتہ قوموں میں ایسے اقدامات بہت بہتری لاتے ہیں ہمارے یہاں نہیں ابھی ہم نے گلگت بلتستان کے حا لات دیکھے ہیں یہ نیا صوبہ بنا ہے۔اس وقت جو حالات ہیں ان کو دیکھ کر ہر پارٹی کے لیڈر کو نہایت ٹھنڈے دل سے غور کر کے قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے اپنے ذاتی مفاد اور اقرباپروری سے گریز کرنا چاہئے۔ اس وقت حکمرانوں نے جو رشوت ستانی اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے یہ کونسی ملک و قوم کی خدمت ہے۔ عوام ہر قسم کی تکالیف کے شکار ہیں اور حکمراں روز نت نئے طریقہ کار ملک کو لوٹنے کیلئے تلاش کر رہے ہیں پورا ملک امن و امان کے فقدان کا شکار ہے عوام احتجاج کرتے ہیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں خدارا کچھ تو ا س پیارے ملک و قوم کیلئے سوچو جس کیلئے لاکھوں عوام نے جان کی قربانیاں دی ہیں جس کے لیے میں خود ایک لڑکے کی حیثیت سے آٹھ کلومیٹر گرم ریت پرننگے پیر چل کر آیا تھا بجا ئے اس کے کہ عوام اور ملک کا سوچیں حکمراں اور اپوزشن والے اپنے وُرثاء کو بھی ملک کی لوٹ مار کیلئے تیار کر رہے ہیں عموماً بزرگ لیڈر نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہوتے ہیں مگر یہاں انکو راشی، ڈاکو، لٹیرا، دروغ گو، منافق بنانے کی تربیت دی جارہی ہے۔جمہوری نظام میں حکمراں پارٹی کی غلطیوں کی نشاندہی اپوزیشن کرتی ہے مگر یہاں اپوزیشن کہاں ہے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ اپنے پچھلے کالم میں موجودہ حالات کو مدِّنظر رکھ کر ہی میں نے اجتماعی قبروں کا ذکر کیا تھا اور خطرہ کا اظہار کیا تھا کہ عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینگے آج اس کی ابتدا کراچی کے علاوہ لیاری میں نظر آرہی ہے عوام نے ہتھیار اُٹھا لیے ہیں اور نہ صرف بندوقوں بلکہ راکٹوں (rpg) کی مدد سے بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ ان راکٹوں سے ٹینک بھی بہ آسانی تباہ کردیے جاتے ہیں۔
نواز شریف اور ان کے متوالوں کی چیخ و پکار سُن کر سخت تعجب ہوتا ہے اور ان کے پچھلے کرتوت اور عقل و فہم کے فقدان پر افسوس ہوتا ہے۔ انہی نواز شریف اور ان کے حواریوں نے زرداری اور گیلانی کو ان عہدوں پر بٹھایا۔ ان کے ساتھ گھی شکر رہے اور ہر بات میں ، جائز ہو یا ناجائز، ان کی دل کھول کر مدد کی اور اب ڈھیٹائی سے ایسے حملے کررہے ہیں جیسے یہ فرشتے ہیں اور شیطان کے خلاف بر سرپیکار ہیں۔ پچھلی اور موجودہ پالیسیاں صرف پنجاب کی حکومت کو بچانے کیلئے ہیں۔
ق۔لیگ کی حقیقت آپ کے سامنے ہے اور جے یو آئی اور ایم کیوایم بھی پیچھے نہیں رہے ہیں۔ مشرف کی ذلت آمیز روانگی کے بعد ق۔لیگ یتیم ہوگئی تھی۔ ن لیگ کے رہنماؤں نے کم عقلی اور ضد کی وجہ سے ان سے مفاہمت نہیں کی اور ملک کو تباہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا مجبوراً ان کو لٹیروں سے مفاہمت کرنا پڑی۔ مولانا فضل الرحمن کی پالیسی لندن کے موسم کی طرح ہے آپ کبھی بھی یقین کے ساتھ اس کے بارے میں پیشگوئی نہیں کرسکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن ہمیشہ اچھا موسم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ سیاست کاکھیل ایم کیو ایم دکھا رہی ہے ۔ایک طالب علم نے فاروق ستار سے کہا تھا کہ آپ کی دونوں جیبوں میں لفافے ہوتے ایک میں استعفے (اور دباؤکے مطالبات) اور دوسری جیب میں مفاہمت (اور اس کے انعامات)۔ یہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف زبانی جمع خرچ کرنے میں ماہر ہیں مگر ان کے ہرکام میں ساتھ دینے اور عیش کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ہر غلط کام میں مطالبات قبول ہوتے ہی ساتھ دینے لگتے ہیں ۔ پہلے یہ مشرف حکومت کے ساتھ چلتے تھے اور اب یہ زرداری کے ساتھ مل کر وہی کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گیلانی کو سپریم کورٹ بددیانت خائن کہتی ہے، ان کو مجرم قراردیتی ہے اور الطاف حسین اُنھیں فوراً لندن سے اعلیٰ کارکردگی اور جامع تقریر پر مبارکباد دیتے ہیں۔
دیکھئے کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ حالات ناقابل اصلاح ہوگئے ہیں، ملک تباہی کے دہانے پر نہیں غلاظت کے دلدل میں پہونچ گیا ہے ۔ جس ملک کا صدر غیر ملک میں رشوت ستانی کا مجرم قرار دیا جاچکا ہو، جس کا وزیر اعظم سند یافتہ مجرم ہو جس کے وزرا رشوت ستانی کے مقدموں میں ملزم قرار دیے جاچکے ہوں اس ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے سرجیکل اقدامات کی ضرورت ہے۔ ذرا دیکھوہندوستان میں پچھلے ہفتہ بی جے پی کے سابق صدر لکشمن کوچھوٹے ہتھیاروں کی خریداری میں صرف ایک لاکھ روپیہ یعنی دو ہزار ڈالر رشوت لینے پر 4 سال کی سزا ہوئی ہے۔
میں آج آپ عوام سے اور خاص طور پر نوجوان طبقہ سے خطاب کرنے اور درخواست کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ خدا کیلئے اس ملک کو بچائیے! یہ نہ رہا تو آپ بے یار و مدد گار بے وطن ہوکر ذلیل و خوار ہونگے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے، اس ملک میں ہر نعمت موجود ہے زرخیز دماغ ہیں، اس ملک کے بچے دنیا میں ذہانت کا لوہا منوالیتے ہیں۔ ہم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے۔ ہم ایک ایٹمی اور میزائل قوّت ہیں۔ اس وقت جو سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں آپ ان کو 40 سال سے آزما چکے ہیں۔
یہ سب نااہل ہیں، مفاد پرست ہیں، رشوت خور ہیں، جھوٹے ہیں، کم عقل ہیں، اقربا پرور ہیں۔ خدا کے لئے ان کو رد کردیجئے، آگے بڑھیے، اپنا فرض ادا کیجئے ، اس پیارے ملک کو بچائیے، نئے ایماندار اُمیدوار تلاش کیجئے ان کو ووٹ دیجئے اور موجودہ حکمرانوں کو ذلیل و خوار کرکے گھر بھیج دیجئے، نیا الیکشن آپ کے لئے ایک سنہری موقع ہے اس سے پورا فائدہ اُٹھائیے اور تبدیلی لائیے۔ اگر آپ نے یہ موقع کھودیا تو پھر آپ کو کوئی شکایت کرنے اور رونے دھونے کا حق نہیں ہوگا، آپ کی حالت اس سے بدتر ہوگی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ میں درجنوں گنا اضافہ ہوگا، غیرملکی قرضے بڑھیں گے۔ آئیے آگے بڑھیے آپ اور میں مل کر اس کشتی کو ڈوبنے سے بچائیں اور بحفاظت ساحل تک پہنچائیں۔ اگرہم اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہے تو ڈر ہے کہ یہ ملک ٹکڑے ہوجائے گا اور پھر کوئی رونے والا بھی نہ ملے گا۔ یااللہ
مشکلیں اُمّت مرحوم کی آساں کردے
مور بے پایہ کو ہمدوش سلیماں کردے