پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت اور سماجی رشتوں کے فروغ کیلئے دوسری دو روزہ پاک انڈیا اکنامک کانفرنس آج لاہور میں ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے دو سال قبل ماہ مئی ہی کے دوران نئی دہلی میں جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا کے مشترکہ پراجیکٹ ”امن کی آشا “ کے تحت پہلی اکنامک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے دونوں ممالک کے صنعتکاروں اور تاجروں نے سیاسی ایشوز سے ہٹ کر باہمی تجارت کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملنے ملانے کے حوالے سے قدم بڑھائے تھے۔ اس کے بعد چند ہفتے قبل نئی دہلی ہی میں لائف سٹائل پاکستان کے نام سے بین الاقوامی نمائش میں پاکستانی مصنوعات کو بڑی پذیرائی مل چکی ہے۔ اب کی بار ”امن کی آشا“ لاہور میں ہو رہی ہے جس میں دونوں ممالک کے بڑے بڑے صنعتکار اور تاجر تجارتی تعلقات کے فروغ اور باہمی اعتماد سازی میں اضافہ کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے اور اس بات پر غور کریں گے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بداعتماد ی یا خوف ایک دوسرے کی معیشت اور تجارت پر کس طرح منفی اثرات مرتب کرتی اور کیا گل کھلاتی ہے۔ اس سلسلے میں اس بات پر تو سب کو اتفاق ہے کہ جنوبی ایشیا میں غربت اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے پاک بھارت تجارتی تعاون میں اضافہ ضروری ہے لیکن اس کے لئے اعتماد کے فقدان کو دور کر کے ایک دوسرے کی مشکلات اور ضروریات کا احساس کرنا ضروری ہو گا۔ اس کے لئے سیاسی اور قومی سلامتی کے ایشوز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔ سیاچن میں حالیہ سانحہ کے بعد اس امر کی ضرورت بڑھ گئی ہے کہ 1989ء میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی او رپاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاچن کے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر جو اتفاق ہوا تھا اس میں قومی سلامتی کمیٹی اور جی ایچ کیو کے حکام سے مشاورت کے بعد اس بات چیت کو انہی نکات کے پس منظر میں آگے بڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح سرکریک، پانی، نان ٹیرف بیریئرز اور دیگر تجارتی پابندیوں میں نرمی کے معاملات بھی ہمیں اپنے قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حل کرنے یا کرانے کی حکمت عملی اپنانی چاہئے۔ اس وقت حالات کا بھی تقاضا ہے کہ ہم بھارت ہو یا امریکہ، پہلے اپنا قومی مفاد مدنظر رکھیں اور محتاط انداز میں معاملات آگے لے کر چلیں۔ بھارت کے حوالے سے پاکستان کے مختلف حلقوں میں کئی خدشات اگر پائے جاتے ہیں تو یہی صورتحال بھارت میں بھی ہے مگر حالات کا تقاضا ہے کہ علاقہ میں امن کے لئے یہی راستہ ہے کہ دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کو اس سلیقے سے بڑھایا جائے کہ اس سے کسی ملک کی بھی معیشت یا سماجی روایات کو نقصان نہ پہنچے۔ پاکستان کے بزنس مینوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ دوطرفہ اقتصادی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے سیاست کا عمل دخل کم ہونا چاہئے۔ا اس سے تجارت بڑھ کرچار سے پانچ ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھارت کی کرنسی کی قیمت پاکستانی روپے سے زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ٹیکسٹا ئل اور خاص کر لان وغیرہ کی برآمدات میں اضافہ کر کے نہ صرف مال کے حجم کے لحاظ سے بلکہ قیمت کے لحاظ سے بھی زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے جس سے ہماری برآمدی آمدنی بھی بڑھ سکتی ہے اور اس سے تجارتی خسارہ کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں ہماری مشینری اور کئی مصنوعات کا معیار بہرحال بھارت سے بہتر ہے جبکہ دوسری طرف بھارت کو بھی کئی شعبوں میں پاکستان پر برتری حاصل ہے جبکہ آٹو سیکٹر، فارماسیوٹیکل اور دیگر شعبوں کے خدشات دور کرنے کے لئے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ تاہم دوطرف ویزا کی سہولتوں میں اضافہ کی متوازن پالیسی بنانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت بین الاقوامی حالات کا تقاضا ہے کہ علاقائی تجارت کو فروغ دیا جائے جو کہ آسیان، یورپی یونین اور دیگر بلاکس کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے کے لئے بھی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ کئے جانیوالے تجارتی معاہدوں کے پس منظر میں ہمارے دونوں ملکوں میں بھی اس طرح کا معاہدہ ہونا چاہئے۔ اس سے آٹھ سے دس سال میں دو طرفہ تجارت 12ارب ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔ امن کی آشا کے حوالے سے بداعتمادی اور خوف کو دور کر کے دو طرفہ اقتصادی تعاون بڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔