Results 1 to 9 of 9

Thread: رخصت

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Aug 2011
    Location
    SomeOne H3@rT
    Age
    38
    Posts
    2,345
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    825 Thread(s)
    Rep Power
    429514

    رخصت

    رخصت

    ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
    ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
    اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
    نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
    میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
    اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
    ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
    رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
    آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
    اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر آتا ہے
    آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
    اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
    میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
    اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!
    گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
    اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
    نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
    سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
    رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
    تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!
    میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
    اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
    سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
    پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
    کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
    اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
    وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں
    افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی
    میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
    فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
    تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
    پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
    گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
    عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
    ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
    اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
    مجھ سا کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
    مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
    مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
    دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
    بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
    تو جانتی ہے ورنہ وفا دار ہوں میں بھی!
    ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
    اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
    ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
    اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
    تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
    یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی
    مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
    تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
    کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
    آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
    "او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ"
    تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
    اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
    مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!
    Last edited by T@nHA.D!L; 07-05-2012 at 08:35 PM.

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •