راتوں کی بسیط خامشی میں
جب چاند کو نیند آ رہی ہو
پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی
لوری کی فضا بنا رہی ہو
جب جھیل کے آئنے میں گھل کر
تاروں کا خرام کھو گیا ہو
ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر
ہر پھول سوال ہو گیا ہو
جب خاک سے رفعتِ نما تک
ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو
جب میرے خیال سے خدا تک
صدیوں کا سکوت خیمہ زن ہو
اس وقت مرے سلگتے دل پر
شبنم سی اتارتا ہے کوئی
یزداں Ú©Û’ Ø+ریم بے نشاں سے
انساں کو پکارتا ہے کوئی

• — — — — — — — •
اØ+مد ندیم قاسمی