عدالت عظمیٰ سے سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا الزام ثابت ہونے پر سزا ملنے کے بعد ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں جس سے مزید توہین عدالت ہورہی ہے۔ ریاستی ادارے جائیں بھاڑ میں اور ان کا تقدس خاک میں،کوئی پروا نہیں صرف فکر ہے کہ کس طرح یوسف رضا گیلانی کو بطور ایک اور شہید کے پیش کیا جائے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور کچھ صوبائی اسمبلیوں نے سزایافتہ وزیراعظم کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔یہ یوسف رضا گیلانی کو سزا ہونے سے نہیں بچا سکتیں اور نہ ہی ان کی نااہلیت کو روک سکتی ہیں کیونکہ یہ فیصلہ عدالتی ہے جو سب پر سپریم ہے اس میں پارلیمان کا کچھ کردار نہیں۔ نہ ہی توہین عدالت کے مقدمے کی کارروائی کے دوران اور نہ ہی اس پر فیصلے میں وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں اکثریت کا سوال اٹھا ہے۔کسی کو کبھی یہ شبہ نہیں ہوا کہ یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں اور انہیں اپنی اکثریت ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی ایوان زیریں میں اکثریت ایک مسلمہ حقیقت ہے تو پھر اس ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا چہ معنی دارد سوائے اس کے کہ عدالت عظمیٰ کا مذاق اڑایا جائے یہ ثابت کر کے کہ عوام کی عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف بری کر دیا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس طرح کی چالوں کا مقصد حکومت پر عدالتی فیصلے کی وجہ سے آنے والے دباؤ کو کم کرنا بھی ہے مگر اس سے عدالتی حکم پر یقینی کچھ اثر نہیں پڑے گا اور اس پر عملدرآمد ہو گا یعنی سزا یافتہ وزیراعظم کوگھر جانا پڑے گا ۔ ان کی قومی اسمبلی میں اکثریت اور صوبائی اسمبلیوں میں بھرپور حمایت دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ خود وزیراعظم اور ان کے قانونی مشیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی سزا یافتہ ہیں مگر وہ مستعفی ہونے پر تیار نہیں۔کسی بھی مہذب ملک میں وزیراعظم ایسا فیصلہ سننے کے فوراً بعد مستعفی ہو جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں عجیب بھونڈے دلائل دیئے جارہے ہیں کہ ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور وزیراعظم کو اپیل کا حق ہے۔ اس طرح کے دلائل کا سہارا لے کر کسی صورت بھی وزیراعظم کے ماتھے سے سزا یافتہ ہونے کا دھبہ نہیں دھویا جاسکتا۔ حکومتی زعماء اخلاقی اقدار کو بالکل ملحوظ خاطر رکھنے کو تیار نہیں بلکہ ایک صاحب نے تو یہ بھی فرما دیا کہ ان کی اخلاقی اقدار اور ہیں اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کی اقدار اور ہیں۔ ہمارے ہاں عزت و احترام سے اقتدار چھوڑنے کا رواج نہیں ہے ہم صرف اس وقت کرسی سے علیحدہ ہوتے ہیں جب ہمیں دھکے مارے جاتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اپنی رہی سہی عزت بھی کھو دینا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی انتخابی سیاست اب ختم ہو چکی ہے وہ پانچ سال تک کوئی بھی الیکشن لڑنے کے لئے نااہل ہو گئے ہیں۔
اس شعبدہ بازی کے طوفان میں حکومت نے قومی اسمبلی سے جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کی قرارداد بھی منظور کرالی جس کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں۔ اس کا مقصد بھی سرائیکی علاقے میں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہے۔ نئے صوبے بنانے کی بات جو کہ انتہائی سنجیدہ انداز میں ہونی چاہئے اور تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہونی چاہئے، مفاد پرستانہ سیاست کی نذر کر دی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کو معلوم ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کو صوبہ نہیں بنا سکتی اور وہ جو کچھ کر رہی ہے صرف اور صرف سیاست ہے۔ یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے جان بوجھ کر جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبے کا نام استعمال نہیں کیا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس طرح کر کے اسے اس علاقے خصوصاً بہاولپور میں بہت زیادہ نقصان ہو گا جو اس کو حاصل ہونے والے فائدے سے یقیناً زیادہ ہو گا۔ اگر وزیراعظم کے گزشتہ ایک سال کے بیانات پر نظر ڈالیں تو وہ بار بار سرائیکی صوبے کا نام لے رہے ہیں۔آئینی اور قانونی لحاظ سے یہ قرارداد ایک بیکار دستاویز ہے۔ نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار آئین میں صاف طور پر درج ہے جس سے انحراف ممکن نہیں ۔ جب تک متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس علاقے میں ایک نیا فیڈریٹنگ یونٹ بنانے کی قرارداد منظور نہ کرے اس وقت تک پارلیمان سے پاس کیا ہوا آئینی ترمیمی بل صدر کو منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جاسکتا یعنی جس طرح ایسے بل کی منظوری کے لئے پارلیمان میں دوتہائی اکثریت ضروری ہے اسی طرح ایسی ہی اکثریت متعلقہ صوبائی اسمبلی میں درکار ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی پنجاب اسمبلی میں دوتہائی اکثریت سے محروم ہیں بلکہ انہیں تو وہاں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں لہذا ایسی کوئی بھی قرارداد سوائے سیاسی شعبدہ بازی کے کچھ نہیں۔ اس قرارداد کا ایک مقصد نون لیگ کو زچ اور سیاسی طور پر تنہا کرنا بھی تھا جس میں حکومت یقیناً کامیاب ہوئی ہے۔ ایک عرصہ سے پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ سرائیکی علاقے کے لوگوں کو باور کرائے کہ وہ ان کے حقوق کی شیدائی ہے اور نون لیگ ان کی مخالف۔ قومی اسمبلی میں شور شرابہ کر کے نون لیگ نے اس قرارداد کی سخت مخالفت کی مگر ساتھ ہی اس نے اپنی قرارداد بھی پیش کر دی کہ سرائیکی بہاولپور ہزارہ اور فاٹا کے نئے صوبے بنائے جائیں۔یہ خفت مٹانے والی بات تھی اور نون لیگ یہ ثابت کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ نئے صوبے بنانے کے خلاف نہیں ہے۔ اس کا مقصد ان علاقوں خصوصاً سرائیکی بہاولپور اور ہزارہ کے لوگوں کو پیغام دینا تھا کہ وہ انہیں ان کی شناخت دینے کی حامی ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف بڑا عجیب ہے وہ بہاولپور کو تو اس کا پرانا اسٹیٹس دینے کو تیار نہیں جہاں ایک بڑی تحریک چل رہی ہے مگر سرائیکی علاقے کو صوبہ بنانا چاہتی ہے جہاں لوگوں کی طرف سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہو رہا۔ اگر ایسا مطالبہ ہو رہا ہے تو وہ صرف فیوڈل لارڈز کی طرف سے ہے۔