ہم ان دنوں ایک طرف باہمی اعتماد کے بحران اور دوسری طرف امریکہ سے ہمارے تعلقات ٹوٹ جانے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ نائن الیون کے بعد ان تعلقات میں بڑی رومانویت پیدا ہو گئی تھی مگر آج وہ کسی ناگہانی صورتِ حال کی خبر دے رہے ہیں۔ لاہور کے تحقیقی ادارئے پائنا اور ٹیک کلب نے اس نازک مرحلے میں قومی سیمینار کا اہتمام کیا اور اس موضوع پر سنجیدہ بحث کی گئی کہ پاک امریکی تعلقات میں سُدھار کے بنیادی عوامل کیا کیا ہیں اور اُنہیں کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
راقم الحروف نے پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مذاکرے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال حضرت قائد اعظم نے متعین کر دیے تھے۔ اُن کا ارشاد تھا کہ ہم تمام بڑی طاقتوں سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں  اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور مسلم برادری سے خصوصی روابط کے آرزو مند ہیں۔ بلاشبہ امریکی نخوت اور اس کی استعماری روش نے پاکستان کے لیے بڑے مسائل پیدا کیے  مگر ہماری طرف سے بھی کم نظری اور عدم صلاحیت کا مظاہرہ ہوا ہے اور ہمارے عوام کے شعور میں یہ بات راسخ کر دی گئی ہے کہ یہود اور نصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور وہ ہمیں تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں ان کے بارے میں جو ارشاد ہوا ہے  اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر انحصار اور اپنے اجتماعی معاملات مکمل طور پر ان کے سپرد کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ دنیا کے ہمارے سب سے بڑے لیڈر حضرت محمد ا نے میثاقِ مدینہ میں یہودیوں اورنصاریٰ سے تعلقات استوار کیے تھے اور اُن کا پورا پورا خیال رکھا تھا۔ راقم الحروف نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ پاکستان نے سفارت کاری کا انتہائی نازک اور کٹھن کام جس ٹیم کے حوالے کر رکھا ہے  وہ ناتجربے کار اور کم عمر دکھائی دیتی ہے جس کے باعث مسائل اُلجھتے اور بگڑتے جا رہے ہیں۔ میں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امریکی سول قیادت یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ایک مربوط اور مستحکم پاکستان ہی افغانستان سے ایک محفوظ اور باوقار امریکی انخلا کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئیر (ر) فاروق حمید خاں نے کہا کہ تعلقات میں سُدھار کا پہلا بنیادی عنصر باہمی اعتماد کی بحالی ہے۔ امریکہ پر لازم آتا ہے کہ وہ سلالہ چیک پوسٹ پر فوجیوں کے قتلِ عام پر معافی مانگے اور ڈرون حملوں کا سلسلہ چھ ماہ کے لیے بند کرنے کا عندیہ دے۔ اُن کی رائے میں واشنگٹن سے معافی اور اسلام آباد کی طرف سے نیٹو سپلائی کی بحالی کیے جانے کا بیک وقت اعلان ہونا چاہیے۔ اُن کا یہ بھی اصرار تھا کہ پاکستان کو عالمی تنہائی سے بچنے اور افغانستان میں امن مذاکرات میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے لیے شکاگو بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا اہتمام کرنا چاہیے۔سینئر سیاسی تجزیہ نگار جناب قیوم نظامی نے اپنی تقریر میں صرف ایک شعر پڑھا اور تعلقات کا اُبلتا ہوا سمندر کوزے میں بند کر دیا اور ہمارے عہد کا بہت بڑتضاد الم نشرح کر دیا۔
بے وقار آزادی ہم غریب قوموں کی
سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاوٴں میں
جناب جاوید نواز جو مسقط میں پاکستان کی سرمایہ کاری کے اعزازی قونصلر ہیں نے تعلقات میں سُدھار کے بنیادی عوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امریکہ سے باوقار اور دیرپا رشتہ قائم کرنے کے لیے اپنی معیشت کو سُدھارنا  معیاری تعلیم کو فروغ دینا اور تحقیق اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ یہ کام ہم اپنے وسائل کے منصفانہ اور دانش مندانہ استعمال کے ذریعے کر سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر جناب فخر امام نے کہا کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں خارجہ پالیسی حکومت بناتی ہے اور پارلیمنٹ اس پر بحث کرتی ہے جبکہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ انتہائی اہم کام پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا جس کے باعث ایک انتشار اور تعطل کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اُنہو ں نے انکشاف کیا کہ امریکی خارجہ پالیسی کے بلند پایہ مفکر برزنسکی نے اپنی تازہ ترین تصنیف میں پاکستان کے جغرافیائی محلِ وقوع کی اہمیت اُجاگر کی ہے اور اپنے فیصلہ ساز اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ان کے لیے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ہماری جعلی قیادت حائل ہے اور عوام پر لازم آتا ہے کہ وہ ان افراد کو منتخب کریں جو مال و منال کی حرص سے بالاتر ہوں اور قومی مفاد کے ساتھ پوری طرح مخلص اور فرض شناس ہوں۔
سابق سفیر جناب جاوید حسین کے نزدیک سب سے بڑی خرابی ہمارے سیاست دانوں کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے۔ وہ پبلک میں قومی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا شور مچاتے ہیں اور پرائیویٹ طور پر امریکہ سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ چینی قیادت نے اپنے عظیم قومی مقاصد کے لیے کئی مقامات بار خود مختاری پر سمجھوتہ کیا اور اپنی معیشت میں عظیم انقلاب لانے کے لیے دن رات پیداواری عمل کو فروغ دیا۔ وہ ملک اگلے پچیس برسوں میں امریکہ کے برابر آ جائے گا۔ عالمی تعلقات کے پروفیسر جناب سجاد نصیر نے کہا کہ ہمارے عوام امریکی مخالف جذبات رکھتے ہیں جبکہ ہماری سیاسی اور عسکری اشرافیہ امریکہ سے مراعات حاصل کرتی رہی ہے۔ اس ہولناک تضاد کے باعث امریکہ اس کنفیوژن کا شکار ہے کہ وہ کس کے ساتھ بات کرے۔ اس کے علاوہ امریکہ اب جنوبی ایشیا اور بحر الکاہل کے ملکوں میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو ایک پالیسی وضع کرنا ہو گی جو امریکی انتظامات کے اندر اپنا اثر و نفوذ پیدا کر سکے۔
پاکستان کے عظیم دانش ور جناب ایس ایم ظفر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جب خارجہ پالیسی کے معاملات پارلیمانی قومی سلامتی کے سپرد کیے جا رہے تھے تو میں نے اس کے خلاف بیان دیا تھا کہ خارجہ پالیسی تجربے کا ر سفارت کار تیار کرتے ہیں جو غیر معمولی پیشہ ورانہ مہارت اور عالمی امور پر دانش کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں پارلیمنٹ کی سفارشات کا حترام بھی کرنا ہو گا اور اس کے کڑے شکنجے سے کسی قدر آزادی حاصل کرنا ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جب تک ہم شمالی وزیرستان میں حکومت کی رِٹ قائم نہیں کر لیتے  اس وقت تک امریکہ ڈرون حملے بند نہیں کرے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بڑی تیزی سے عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور امریکہ میں پاکستان کے بارے میں اعصاب شکن کتابیں شائع ہو رہی ہیں جن میں اس کے اندرونی انتشار کی ایک ہولناک تصویر پیش کی جاتی ہے اس لیے ہمیں جذباتیت کے بجائے عقل و دانش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
سیمینار میں اس بات پر اتفاقِ رائے پایا گیا کہ پاک امریکی تعلقات میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کی جائے اور پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے امریکہ پر یہ واضح کیا جائے کہ ایک مضبوط پاکستان ہی افغانستان سے ایک محفوظ اور باعزت انخلا کا ضامن ہو سکتا ہے۔ مقررین نے اس قومی عزم کا خیر مقدم کیا جس کا مظاہرہ سلالہ چیک پوسٹ پر فوجیوں کے قتل عام کے بعد ہوا اور جس نے امریکی قیادت کو تعلقات میں بہتری لانے پر مجبور کیا ہے۔ سیمینار نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جو پاکستان کی عالمی تنہائی کا باعث بنتے ہوں۔