شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں،
آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں،
سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے،
شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں،
تُو نے یہ کیا قید لگا دی تیرے جیسے رنگ بھروں،
کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں،
ایک سحر کی پیاس میں دل کب سے انگارے پیتا ہے،
ہر سب جانے کتنے سورج آنکھوں سے ٹکراتے ہیں،
دہراتی ہے شب بیداری دن بھر کے سب ہنگامے،
تنہائی کے سناٹے بھی کانوں سے ٹکراتے ہیں،
وقت کے دریا کی موجوں میں روز تصادم ہوتا ہے،
جاتے لمحے، آنے والے لمحوں سے ٹکراتے ہیں،
اب جو صبا آتی ہے چمن میں گل ہی اور کھلاتی ہے،
سوکھے پتے آُڑ کر ویراں شاخوں سے ٹکراتے ہیں۔
حزیں صدیقی