غزل
(اختر ہوشیار پوری)
اور کچھ تیرے تصور کے سوا کام نہیں
میں سمجھتا ہوں کہ اب عشق مرا خام نہیں
یوں ہوس کار زمانے میں بہت ہیں لیکن
اصل میں عشق جسے کہتے ہیں وہ عام نہیں
تجھ کو دیکھا نہ تھا جب تک یہ مرا حال نہ تھا
عشق پیغام ہے تیرا، مرا پیغام نہیں
سجدہ کیا چیز ہے، کیا شے ہے دعاؤں کا اثر؟
مری تخئیل میں گنجائشِ اوہام نہیں
تو ہی چاہے تو بدل دے مری ہستی کا نظام
ورنہ اس صبحِ محبت کی کوئی شام نہیں
اب مجھے آٹھ پہر رہتا ہے تیرا ہی خیال
تجھ سے کچھ کام نہیں، تجھ سے تو کچھ کام نہیں!
میری نظروں میں تری بزم وفا ہے اے دوست!
مجھ کو زنہارِ غم گردشِ ایام نہیں
کونسی رات ستاروں میں نہیں ذکر ترا؟
کون سے دن مرے ہونٹوں پہ ترا نام نہیں؟
اختر اس چیز کو کہتے ہیں مقّدر کا لکھا
اُن کے پہلو میں+ بھی حاصل مجھے آرام نہیں