Results 1 to 5 of 5

Thread: Kainaat

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Jun 2010
    Location
    Jatoi
    Posts
    59,925
    Mentioned
    201 Post(s)
    Tagged
    9827 Thread(s)
    Rep Power
    21474910

    Default Kainaat


    یہ کائنات ایک سوال ہے۔ سوال در سوال، اور ہر سوال کا جواب صرف خالقِ کائنات Ú©Û’ پاس ہے کیونکہ وہ ہر عمل میں با اختیار ہے ‘ جس کا جواز بھی اُس Ú©Û’ پاس ہے۔ صاØ+بِ جواز ہی صاØ+بِ جواب ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال بھی اس Ù†Û’ خود ہی اٹھایا کہ میں Ù†Û’ کائنات Ú©Ùˆ تخلیق کیوں کیا؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ ’’ میں ایک مخفی خزانہ تھا ‘ میں Ù†Û’ چاہا کہ پہچانا جائوں، سو میں Ù†Û’ کائنات Ú©Ùˆ پیدا کیا‘‘ دوسرا... سوال انسان Ú©ÛŒ تخلیق پر فرشتوں Ú©ÛŒ طرف سے اعتراض Ú©ÛŒ صورت میں سامنے آیا: اے رب العزت! انسان دنیا میں فساد پیدا کرے گا ‘ تو صاØ+بِ جواز Ù†Û’ فرمایا:’’ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘
    سوال اعتراض ہے ‘ جواب اطمینان ہے۔ سوال اضطراب ہے‘ جواب سکون ہے۔ سوال تجسس ہے اور جواب Ø+اصل ہے۔ ایک اعتراض ابلیس Ù†Û’ کیا کہ Ø¢Ú¯ مٹی سے بہتر ہے تو آدم Ú©Ùˆ سجدہ کیوں کروں۔ خدا تعالیٰ Ù†Û’ الفاظ Ú©ÛŒ صورت میں اس کا جواب دینے Ú©ÛŒ بجائے ابلیس Ú©Ùˆ بزمِ لامکاں سے نکال کر زمین پر بھیج دیا کہ جائو انسانوں Ú©Û’ درمیان اس سوال کا جواب تلاش کرو کہ تم بہتر ہو یا اولادِ آدم؟
    Ø+ضرت عزیر Ù†Û’ زندگی بعد از موت کا سوال کیا تو خدا Ù†Û’ براہِ راست مشاہدے Ú©Û’ لیے ان پر تین سو سال تک موت طاری کر دی اور Ø+ضرت ابراہیم Ú©Ùˆ اُن Ú©Û’ سوال Ú©Û’ جواب میں چار پرندے ذبØ+ کر Ú©Û’ پہاڑ پر رکھنے کا Ø+Ú©Ù… فرمایا۔ دوسری طرف Ø+ضرت موسیٰ Ù†Û’ سوال کیا کہ مجھ سے زیادہ بھی کسی Ú©Û’ پاس علم ہے تو خدا Ù†Û’ انہیں Ø+ضرت خضر سے ملا دیا۔ انبیاء براہِ راست خدا سے سوال کرتے ہیں لیکن اُمت Ú©Û’ سوال ہمیشہ انبیاء Ú©Û’ توسط سے ہی خدا Ú©Û’ Ø+ضور پیش ہو سکتے ہیں۔خدا بھی اپنے بندوں سے کبھی یا ایہاالناس اور کبھی یاایہاالمومنو٠کے خطاب سے سوال کرتا ہے کہ ’’ تم میری کون کون سی نعمتوں Ú©Ùˆ جھٹلائو گے‘‘ یا جب انسانوں Ú©Ùˆ ان Ú©ÛŒ آفرینش سے آگاہ کرنا چاہتا ہے تو پوچھتا ہے : ’’ کیا میں Ù†Û’ تمہیں کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا نہیں کیا‘‘
    Ø+ضور سرورِ کائنات Ú©Û’ علاوہ صØ+ابہ کرام میں صرف باب العلم Ø+ضرت علی المر تضیٰ کرم اللہ وجہہ کا اعلان تھا کہ سوال کرو‘ زمین Ùˆ آسمان Ú©Û’ بارے میں‘ زندگی اور موت Ú©Û’ متعلق‘ ہر قسم Ú©Û’ سوال Û” ایک دفعہ آپ مسجد میں تشریف Ù„Û’ جارہے تھے اور نماز کا وقت قریب تھا Û” ایسے نازک موقع Ú©ÛŒ تلاش میں چند یہودیوں Ù†Û’ آپ کا راستہ روک کر سوال کر ڈالا کہ کون سے جانور انڈے دیتے ہیں اور کون سے بچے۔ آپ Ù†Û’ بغیر کسی تردد Ú©Û’ چلتے چلتے برجستہ جواب دیا کہ جن جانوروںکے کان باہر ہیں وہ بچے دیتے ہیں اور جن Ú©Û’ کان اندر ہوتے ہیں وہ انڈے۔
    انسان Ú©Ùˆ قدم قدم پر سوالات کا سامنا ہے۔ اپنی Ø+یثیت Ú©Û’ بارے میں ‘ خدا تعالیٰ Ú©ÛŒ ذات Ùˆ صفات Ú©Û’ متعلق‘ مرگ اور بعد از مرگ کا سوال ‘ Ø+لال Ùˆ Ø+رام کا سوال ‘ شریعت Ùˆ طریقت کا سوال‘ بادشاہ ‘ اولی ا لامر اور مرشدِ کامل کا سوال ‘ خالق Ùˆ مخلوق Ú©Û’ تعلق کا سوال‘ انسان اور انسانی رشتوں کا سوال‘ اپنی ابتداء انتہا کا سوال۔ یہ تمام سوالات اہلِ فکر Ùˆ عمل Ú©ÛŒ جان کا روگ ہیں۔ یہ ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جسے سلجھانے کا کام صدیوں سے جاری ہے۔ لیکن اس ڈور Ú©Ùˆ کوئی ناخن گرہ کشا ہی سلجھا سکتا ہے۔
    صاØ+بِ علم کتابوں Ú©Û’ مطالعے اور نظری مشاہدے کا Ù…Ø+تاج ہے‘ پھر بھی ہر علم Ú©ÛŒ انتہا Ø+یرت ہے‘ علم Ú©Û’ پاس دلیل تو ہے ‘ یقین نہیں ‘ Ø+قیقی مشاہدہ صرف عشق Ú©Û’ پاس ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال Ù†Û’ فرمایا:
    علم Ú©ÛŒ Ø+د سے پرے بندۂ مومن Ú©Û’ لیے
    لذتِ شوق بھی ہے نعمتِ دیدار بھی ہے

    کسی Ù†Û’ Ø+ضرت واصف سے سوال کیا کہ شریعت اور طریقت میں کیا فرق ہے؟
    آپ Ù†Û’ فوراََ جواب دیا:’’شریعت میں Ù…Ø+بت داخل کر دو تو طریقت بن جاتی ہے‘‘
    کسی Ù†Û’ سوال کیا : ’’اللہ اور اللہ Ú©Û’ Ø+بیب میں کیا فرق ہے؟‘‘
    آپ Ù†Û’ فرمایا : ’’جب تک انسان عاشق نہیں بنتا تو ان دونوں میں فرق رہتا ہے ‘ عاشق بن جائے تو فرق نہیں رہتا کیونکہ عاشق Ú©Ùˆ پتہ نہیں ہوتا کہ فرق کیا ہوتا Û” عشق کا مطلب کسی عاشق سے پوچھو تو وہ کہے گا کہ عشق صرف Ù…Ø+بوب ہے‘‘

    جب سے انسان نے الٰہیات کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے تقدیر اور تدبیر کے متعلق فکری اشکال میں الجھتا رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’تقدیر اپنا بیشتر کام انسانوں کے اپنے فیصلے میں ہی مکمل کر لیتی ہے انسان راہ چلتے چلتے دوزخ تک جا پہنچتا ہے یا وہ فیصلے کرتے کرتے بہشت میں داخل ہو جاتا ہے۔ بہشت یا دوزخ انسان کا مقدر ہے لیکن یہ مقدر انسان کے اپنے فیصلے کے اندر ہے‘‘

    میرا نام واصف باصفا ‘ میرا پیر سیدِ مرتضیٰ
    میرا وِرد اØ+مدِ مجتبیٰ ‘میں سدا بہار Ú©ÛŒ بات ہوں
    Last edited by Hidden words; 05-08-2012 at 12:56 AM.





    تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
    کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •