Results 1 to 1 of 1

Thread: Halal Or Haram

  1. #1
    Join Date
    Jun 2012
    Location
    hOmE sWeEt hOmE
    Posts
    13
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)
    Rep Power
    0

    Default Halal Or Haram

    مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
    اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ... Ú©ÛŒ طرØ+ سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر Ú©Û’ بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر Ù†Û’ دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں Ú©Û’ ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس Ú©ÛŒ میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاØ+ب کا کراہت اور غُصے سے بُرا Ø+ال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے Ú©ÛŒ بہت کوشش Ú©ÛŒ مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان Ú©Ùˆ بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاØ+ب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرØ+ کیوں نہیں کھاتا؟

    شیخ صاØ+ب Ù†Û’ ترجمان Ú©Ùˆ دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟

    کمشنر صاØ+ب Ù†Û’ کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے Ú©Û’ ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟

    شیخ صاØ+ب Ù†Û’ جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں Ú©ÛŒ صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر Ú©ÛŒ صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟

    شیخ صاØ+ب Ú©Û’ جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس Ù†Û’ تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور Ù„Û’ گا۔

    کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

    چہ جائیکہ کمشنر عربوں Ú©ÛŒ ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس Ù†Û’ اس ضیافت میں شہر Ú©Û’ معززین اور علماء Ú©Ùˆ مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں Ú©Ùˆ توڑتے ہوئے اُس Ù†Û’ اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاØ+ب Ú©Ùˆ جلانے Ú©ÛŒ خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاØ+ب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاØ+ب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟

    شیخ صاØ+ب Ù†Û’ مختصراً کہا، ہاں،۔

    کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!

    ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاØ+ب Ú©Û’ درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتØ+ال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب Ú©Û’ چہروں سے نادیدہ خوف Ú©Û’ سائے نظر Ø¢ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاØ+ب Ú©Û’ نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔

    کمشنر Ú©Ùˆ مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاØ+ب Ù†Û’ کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر Ø+لال ہے اور دوسری Ø+رام ہے؟

    مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر Ù†Û’ فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا Ø+ُکم دیدیا تھا۔

    Last edited by Hidden words; 05-08-2012 at 12:22 AM.

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •