اصحاب فیل
سردار عبد المطلب کےدور میں ابرہہ حبشی نے بیت اللہ کو ڈھانے کا پروگرام بنایا۔ یہ واقعہ بڑا معروف ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ نجاشی کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا۔ اس نے دیکھا کہ اہل عرب بیت اللہ کا حج کرتے ہیں' دیکھا دیکھی اس نے بھی صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا بنوایا۔ اس کی خواہش تھی کہ عرب کے حج کا رخ اسی کی طرف پھر جائے۔ یہ خبر بنو کتانہ کے ایک آدمی ہوئی تو اس نے اس کلیسا میں رفع حاجت کر ڈالی۔ ابرہہ کو سخت غصہ آیا۔ اس نے ساٹھ ہزار کا لشکر جرار لے کر بیت اللہ پر چڑھائی کر دی۔ اس کے لشکر میں 9 یا 13 ہاتھی تھے۔ اسی لیے ان کو اصحاب فیل کہا گیا۔
ابرہہ نے اہل قریش اور اہل تمامہ کے بہت سے مویشی لوٹ لیے۔ان میں سردار عبد المطلب کے بھی دو سو اونٹ سوار شامل تھے۔
بیت اللہ کو ڈھانے کی خبر جب اہل مکہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے وہ چاہے تو اپنے گھر کو بچا لے۔ادھر ابراہہ نےاپنا ایلچی بھجوایا کہ میری اہل مکہ سے کوئی لڑائی نہیں میں تو صرف بیت اللہ کو ڈھانے آیا ہوں۔ ایلچی کے کہنے پر سردار عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس قدر وجیہ اور شاندار شخص سے بے حد متا ثر ہوا اور کہا آپ اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر یہ گھر جو آپ کا اور آپ کےدین کا مرجع ہے اس کی کوئی بات نہیں کررہے؟ انہوں نے کہا: میں اونٹوں کا مالک ہوں۔ اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر 'تو اس کا ایک رب ہے۔ وہ اس کی خود خفاظت کرے گا۔ ابرہہ نے کہا کہ وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔عبد المطلب نے جواب دیا آپ جانیں اور وہ جانے۔ ابراہہ نے انکے اونٹ واپس کر دیے۔
اہل مکہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ عبدالمطلب نے چند سرداروں کو ساتھ لیا اور حرم میں اللہ سے بیت اللہ کی حفاظت کی دعائیں مانگیں۔
اللہ تعالیٰ نے لشکر کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ارسال کر دیے جو اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کر دی۔ جس سے سارا لشکر ہلاک ہوگیا۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں۔ اسی سال اللہ کے رسول کی ولادت مبارک ہوئی اصحاب الفیل کا واقعہ محرم میں پیش آیا جبکہ اسکے 50 دن بعد ربیع الاول کے مہینہ میں اللہ کے رسول کی ولادت با سعادت ہوئی۔
آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں' عبد المالک مجاہد' صفحہ:46