ہوتی ہے تیرے نام سے ÙˆØ+شت کبھی کبھی
برہم ہوئ ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راØ+ت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھل گئ تری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمھارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئ شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم Ù†Û’ ترکِ Ù…Ø+بّت Ú©Û’ باوجود
Ù…Ø+سوس Ú©ÛŒ ہے تیری ضرورت کبھی کبھ