یہ میرا دوش نہیں

قلم کی نوک پر اب تک لہو کے قطرے ہیں
خبر کے ہاتھ پہ لکھا ہو ا ہے صبر ابھی
سمے کی آنکھ میں اب تک سفر کی اُلجھن ہے
بکھرتا ہوں میں کبھی اور کبھی سنورتا ہوں
نہ ٹوٹتا
ہوں مکمل نہ پورا اُ جڑتا ہوں
میں درمیان سے آگے جو بڑھ نہیں پایا
یہ میرا دوش نہیں راستوں کی سازش ہے
کسی بھی سمت چلے اب ہوا یہ ثابت ہے
ابھی دُکھوں Ú©Ùˆ میری زندگی Ú©ÛŒ Ø+اجت ہے

ڈاکٹر ابرار عمر