نظم ۔ ۔ ۔ ۔
ان دنوں
میری اپنے آپ سے بول چال بند ہے
میرے اندر ایک بانچھ غصہ
پھنکارتا رہتا ہے
نہ مجھے ڈستا ہے
نہ میرے گرد اپنی گرفت ڈھیلی کرتا ہے
نینوا کی سر زمین
ایک بار پھر سرخ ہے
فرات کے پانی پر
ابن زیاد کےطرف دارون کا ایک بار پھر ببضہ ہے
زمین اور آسمان
ایک بار ششما ہے کا لہو
وصول کرنے سے انکاری ہیں
اور میرے چہرے پر اب مزید لہو کی جگہ نہیں
فاتح فوج اور روشنی اور آگ کے فرق کو نہیں سمجھتی
صحرا کی رات کاٹنے کےلیے انہیں الاؤ کی ضرورت تھی
سو انہوں نے میرے کتب خانے جلادیئے
لیکن میں احتجاج بھی نہیں کر سکتی
میرے بالوں میں سرخ اسکارف بندھا ہے
اور میرے گلاس میں کوکا کولا ہنس رہا ہے
میرے سامنے ڈالر کی ہڈی پڑی ہوئے ہے
پروین شاکر