" فیصلہ "
فیصلہ کرنا ہو تو
غصے میں دروازہ زور سے
بند کرنا بھی فیصلہ ہے
بیوی کے بستر سے اٹھ کر
صحن میں رکھی کرسی پر
سر لٹکاۓ سو جانا بھی فیصلہ ہے
چاۓ کی ایک کڑوی چسکی لے کر
تند مزاج افسر کی میز پہ
فائل چھوڑ آنا بھی فیصلہ ہے
ایک ذرا سی حد ہے لیکن
ٹوٹے جسم کی ساری ہمت یکجا کر کے
فیصلہ کرنے کی تکلیف گوارا کرتا ہوں تو
بچوں کی تصویریں سامنے آ جاتی ہیں
خاموشی سے
بہنوں کی آواز سنائی دیتی ہے
اور سینے کے جلتے بجھتے داغوں میں
بوڑھی ماں کے آنسو روشن ہو جاتے ہیں
==