امام احمد رضا ہندوستان کے بے مثال عالم، فقیہ، مدبر، مصنف اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان کے وصفِ عشقِ مصطفی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ وہ زندگی بھر محبت ِ رسول میں سرشار ہوکر اپنے آقا کے گُن گاتے رہے، وہ زندگی بھر سیرتِ نبوی پر لکھتے رہے، سیرت کے متعدد گوشوں اور پہلوؤں پر لکھا اور لکھنے کا حق ادا کردیا۔ ایک ایک عنوان پر مستقل رسالے تصنیف کیے اور تحقیق کے دریا بہادیے۔
پروفیسر محمد مسعود احمد مظہری کیا خوب تحریر فرماتے ہیں:
”امام احمد رضا اپنے محبوب دل آرا کی محبت میں ڈوبتے ہیں اور اس کے حسن دل افروز کو شعروں میں ڈھالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے دل مچل رہے ہوں، جیسے آنکھیں برس رہی ہوں، جیسے سینے پھک رہے ہوں، جیسے چشمے اُبل رہے ہوں، جیسے پھوارے چل رہے ہوں، جیسے گھٹائیں چھارہی ہوں، جیسے پھوار پڑ رہی ہو، جیسے مینہ برس رہا ہو، جیسے جھرنے چل رہے ہوں، جیسے دریا بہہ رہے ہوں، جیسے صبا چل رہی ہو، جیسے پھول کھل رہے ہوں، جیسے خوشبو مہک رہی ہو، جیسے تارے چمک رہے ہوں، جیسے کہکشاں دمک رہی ہو، جیسے آفاق پھیل رہے ہوں، جیسے دنیا سمٹ رہی ہو، جیسے زمیں سے اٹھ رہے ہوں، جیسے فضاؤں میں بلند ہورہے ہوں، جیسے آسمانوں میں پھیل رہے ہوں، جیسے دروازے کھل رہے ہوں، جیسے ایک نئے جہاں میں جھانک رہے ہوں، جیسے قدسیوں سے باتیں کررہے ہوں، جیسے حوروں سے سرگوشیاں کررہے ہوں، جیسے باغِ بہشت کی سیر کررہے ہوں، جیسے کوثر و تسنیم سے سیراب ہورہے ہوں، جیسے سینوں میں وسعتِ کونین سمارہی ہو، جیسے جلوہٴ یار کو آمنے سامنے دیکھ رہے ہوں، جیسے وہ آرہے ہوں، جیسے وہ جارہے ہوں، جیسے وہ مسکراکر دل کی کلیاں کھلارہے ہوں، جیسے ہم ان کو دیکھ دیکھ کر مررہے ہوں، جی رہے ہوں، جیسے ان کے نور کی خیرات لوٹ رہے ہوں، جیسے ان کے کرم کی بہاریں دیکھ رہے ہوں، رضا بریلوی کے نعتیہ نغموں کی کیا بات! ایک ایک حرف چمک رہا ہے، ایک ایک لفظ دمک رہا ہے، ایک ایک مصرعہ چہک رہا ہے، ایک ایک شعر میں جہانِ معنی آباد ہے۔“
(جہانِ رضا، لاہور۔ جنوری 2002، ص: 36 تا 38)
امام احمد رضا نے جس محبت بھرے انداز میں جمالِ مصطفوی کا تذکرہ کیا اور حسنِ مصطفی بیان کیا، پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر دیدہ و دل جھوم جھوم جاتے ہیں، بھلا جس کی روح کا چین چہرہٴ والضحیٰ ہو جس کے لب پر لمحہ لمحہ ذکرِ حبیبِ خدا ہو، جب وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی خوبیاں بیان کرے گا تو پھر کیفیت کیا ہوگی۔ سنئے وہ کیا فرمارہے ہیں
حُسنِ بے داغ کے صدقے جاؤں
یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سنا
کہتے ہیں، اگلے زمانے والے
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چہرہٴ مصطفی کو دیکھ کر دل و نگاہ کا سرور پاتے تھے۔ جب بارگاہِ نبوت میں رخِ زیباکی زیارت کرتے ہوں گے تو ان کی قسمت کا ستارہ کتنا بلند ہوتا ہوگا اور پھر اس نغمہٴ حسنِ محمدی کو گاتے وقت ان کا اندازِ محبت کیا ہوگا۔ بلاشبہ ان کے دیدہ و دل جھوم جھوم جاتے تھے۔ اپنے انہی سرکاروں سے امام احمد رضا نے فیض پایا تھا۔ حسانِ رسول نے کہا تھا
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرء من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
اب شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امام احمد رضا نے جو عرض کیا وہ ملاحظہ کریں
لم یات نظیرک فی نظر
مثلِ تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سرسو
ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
اپنے آقا کے حسن و جمال، خد و خال، زلف و رخسار کی مدحت و تعریف کتنے والہانہ انداز میں بیان کرتے ہیں، ملاحظہ کریں
سرتابقدم ہے تنِ سلطان زمن پھول
لب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول
محب اپنے محبوب کی خوبیاں ہی بیان کرتا ہے، اسے اپنے محبوب کی ذات میں نقص و سقم نظر نہیں آتا۔ پھر جو محبوبِ خدا کا عاشق و محبوب ہو تو اسے کیسے گوارا ہوگا کہ کوئی ان میں نقص نکالے، ان کی صورت و سیرت پر نکتہ چینی کرے، امام احمد رضا کے عشق کی بولی تو دیکھئے۔۔۔
وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقصِ جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
جس عاشقِ رسول نے بھی نثر و نظم میں سیرتِ مصطفی بیان کی، وصفِ حسن و جمال کا ذکر ضرور کیا کہ یہ اہم وصف نعتِ مصطفی کا خاص حصہ ہے
بادِ رحمت سنک سنک جائے
وادیٴ جاں مہک مہک جائے
جب چھڑے بات حُسنِ احمد کی
غنچہٴ دل چٹک چٹک جائے
حدائقِ بخشش امام احمد رضا کی نعتوں کا حسین گلدستہ ہے جس کی ہر کلی خزاں نا آشنا ہے۔ مدحت و نعت کا لازوال ارمغان ہے جس کی ہر نعت معنی آفرینی، شوکت الفاظ اور وفورِ عقیدت کی بدولت آسمان عقیدت پر جگمگانے والے نجمِ کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں جگہ جگہ جمالِ مصطفوی کے تذکرے محبت بھرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں بلکہ صرف سلامِ رضا ”مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام“ میں تو ایک ایک عضوِ رسول پر نرالے انداز میں عقیدت کے گل نچھاور کیے ہیں۔ ذرا بیانِ جمالِ مصطفی کا یہ انداز دیکھئے
عید مشکل کشائی کے چمکے ہلال
ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام
شمس و قمر، سیارگانِ فلک، گل ہائے رنگارنگ اور سبزہ زاروں کا حسن بھی کسی کے نزدیک بڑا اہم ہوتا ہے مگر عاشقِ صادق امام احمد رضا کہتے ہیں کہ یہ سب تو حسنِ مصطفوی کے پرتو ہیں۔ چاند تو خود حسنِ رسول کے سامنے پھیکا نظر آتا ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے تو بتادیا کہ چہرہٴ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں، پھر چاند کو دیکھیں تو جمالِ مصطفی کے آگے چاند کی چاندنی شرماجائے۔ درحقیقت چاند تو خود نقشِ کفِ پا کو بوسہ دیتا نظر آئے گا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو چاندنی راتوں میں دیکھا ہے۔ اس وقت آپ کے جسمِ اطہر پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں کبھی آپ کے روئے انور کو دیکھتا اور کبھی چاند کی تابانی کو۔ خدا کی قسم میرے نزدیک چاند سے زیادہ بہتر آپ معلوم ہوتے تھے۔
اب امام احمد رضا کے یہ اشعار پڑھیے:
برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی جس پر ایک بار
آج تک سینہٴ مہ میں ہے نشانِ سوختہ
رُخِ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ دہِ نقشِ کفِ پا ہوکر
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا، یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں
وصفِ رخ ان کا کیا کرتے ہیں
شرح والشمس و ضحی کرتے ہیں
ان کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں
جن کو محمود کہا کرتے ہیں
سیدنا یوسف علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰةوالسلام کو پروردگارِ عالم نے وہ حسن و جمال عطا فرمایا کہ دنیا والے اس کی تاب نہ لاسکے جن کے رُخ زیبا کو دیکھ کر مصرکی عورتوں نے عالم حیرت میں پھل کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔ مگر سنیے بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا فرماتی ہیں:
”زلیخا کی سہیلیاں اگر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی حسین جبین کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے دل کاٹ بیٹھتیں۔“ امام احمد رضا اسی واقعہ کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں
حُسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب