ایک ولی اللہ امامت کے لئے کھڑے ہوئے۔ چند ہم عصر ساتھی بھی ان کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی وہ حضرات تکبیروں سے وابستہ ہوئے قربانی کی طرح اس دنیا فانی سے باہر نکل گئے۔ تکبیر کے معنی ان کے نزدیک یہ تھے کہ اے اللہ ہم تیرے نام پر قربان ہوئے جیسے ذبح کے وقت اللہ اکبر بڑھی جاتی ہے۔ انہوں نےاللہ اکبر پڑھی اور اپنے نفس کا سر کاٹ دیا۔ جسم شہوتوں اور حرص سے چھوٹ کیا۔ بسم اللہ کے ذریعے نماز میں بسمل ہو گیا اس کے بعد انہوں نے قیامت کے دن کی طرح اللہ کے حضور کھڑے ہو کر ہاتھ باندھ دیئے۔پھر اللہ عزوجل پوچھتے میرے لئے کیا لایا۔ میں نے ایک عمر تمہیں عطا کی' روزی دی' طاقت دی'تو نے کس کس کام میں لگائی۔ بینائی'سماعت اور دیگر حواس کی دولت دی تو نے کس طرح استعمال کی۔ ہاتھ پاؤں تجھے کام کرنے کے لئےدیئے ان سے تو نے کیا کام لیا۔
قیام کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے متعدد سوال ہوتے رہے۔ چونکہ انسان کا دامن خالی تھا۔ لہٰذا وہ سوالوں کی تاب نہ لا سکا اور فورا" رکوع میں چلا گیا۔
شرم سے رکوع میں اللہ عزوجل کی عظمت کی بڑائی کرنے لگی۔ اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ رکوع سے اٹھ اور جواب دے۔ وہ سر اٹھاتا ہے۔ پھر طاقت گویائی نہ پا کر سجدہ میں منہ کےبل گر پڑتا ہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھانے کا حکم ہوتا ہے۔
پھر سر اٹھاکر گر پڑتا ہے۔ پھر اللہ اکبر کا نعرہء بلند کرتے ہوئےکھڑا ہوتا ہے۔پھر اسکے ساتھ یہی عمل دہرایا جاتاہے دوسری رکعت مکمل کرنے کے بعد کھڑے ہونے کی تاب نہ پا کر قعدہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ اس میں اللہ عزوجل پھر فرماتے ہیں۔ میں نے تجھے بے شمار نعمتیں دیں تو نے کیسے خرچ کیں۔ مجھے حساب دے چونکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ جواب نہیں دے پاتا۔ داہنے طرف سلام کہتا ہے اور انبیائے کرام کو مخاطب کر کے اپنی مدد کو بلاتا ہے۔ پھر بائیں جانب اپنے اہل خاندان اور دوست احباب کو سلام کہہ کر مدد کےلئے بلاتا ہے۔ دونوں طرف سے مایوس ہو کر رحیم کریم آقا کے حضور دعا کے لئے ہاتھ بلند کر لیتا ہے۔
پھر آہ و زاری سے اپنے خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کرت ہے۔
درس حیات:
نماز اس طرح پڑھو گویا تم اللہ تعالیٰ کے حضور دست بستہ کھڑے ہو۔
حکایات رومی صفحہ:75