-
روزے کے اہم اہم مسائل
----------
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
روزے کے اہم اہم مسائل
1-وجوب نیت
فرض روزوں کے لیے رات کو طلوع فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
’’جس نے فجر سے پہلے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں۔‘‘
(من لم۔۔۔۔ صیام لہ) (سنن ابی داؤد، الصیام، باب النیة فی الصوم، ح:۲۴۵۴)
رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے، علاوہ ازیں فجر کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس نے سحری بھی کھانی ہوتی ہے، اور سحری کا وقت بھی رات ہی میں شامل ہے۔ اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے، کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان ۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں: (وبصوم غد نویت من شہر رمضان) بالکل بے اصل ہیں۔ اس کی سند نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا پڑھنا صحیح نہیں، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
2-روزے کا وقت
طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے۔ صبح صادق سے پہلے سحری کھا لی جائے اور پھر سورج کے غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔
3-سحری ضرور کھائی جائے
بعض لوگ سحری کھانا ضروری نہیں سمجھتے اور رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز، سحری کا کھانا ہے۔‘‘
(فضل ما ۔۔۔۔۔۔۔۔السحر) (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل السحور۔۔۔، ح:۱۰۹۶)
یعنی اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضروری کھانی چاہیے۔ چاہے ایک کھجور یا چند گھونٹ پانی ہی ہو۔ اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کو غدائے مبارک سے تعبیر فرمایا ہے۔ (سنن ابی داؤد، الصیام، باب من سمی السحور الغداء، حدیث :۲۳۴۴)
ایک اور حدیث میں فرمایا:
’’سحری کا کھانا باعث برکت ہے، اس لیے اسے نہ چھوڑو، چاہے کوئی ایک گھونٹ پانی ہی پی لے، کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔
(السحور اکلہ۔۔۔۔۔۔ علی المسحرین) (الفتح الربانی: ۱۶/۱۰)
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور طریقہ مبارک یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے بالکل آخری وقت میں کھایا کرتے تھے۔ روزے داروں کے لیے اس طریق نبویﷺ کو اپنانے میں بڑے فائدے ہیں۔ مثلاً فجر کی نماز میں سستی نہیں ہوتی، سحری سے فراغت کے فوراً بعد نماز فجر کا وقت ہو جاتا ہے۔
انسان آسانی سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے اور روزے کی ابتداء اور انتہاء کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے، جس سے روزے دار کو سہولت مل جاتی ہے وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صوم و صال ‘‘ یعنی بغیر کچھ کھائے پئے مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
صحیح بخاری، الصیام، باب الوصال، ح:۱۹۶۲، ومسلم، باب النھی عن الوصال، ح: ۱۱۰۴
4-روزہ کھولنے میں جلدی کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ روزہ کھولنے میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ جلدی کی جائے۔ جلدی کا مطلب سورج کے غروب ہونے سے قبل روزہ کھولنا نہیں ہے، بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بلا تاخیر فوراً روزہ کھولنا ہے۔ جیسے بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا اندھیرا چھا جانے کو ضروری سمجھتے کہ تارے نظر آنے لگ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہود و نصاری کا یہی معمول تھا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم یہود و نصاری کے برعکس سورج کے غروب ہوتے ہیں فوراً روزہ کھول لیا کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگ اس وقت تک ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے۔‘‘
(لا یزال الناس۔۔۔۔۔۔ الفطر) (صحیح البخاری، الصوم، باب تعجیل الافطار، ح: ۱۹۵۷، ومسلم، الصیام، باب فضل السحور، ح:۱۰۹۸)
5-روزہ کس چیز سے کھولا جائے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے، اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو چھواروں سے روزہ کھولتے، اگر چھوارے بھی نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ نوش فرما لیتے۔‘‘
(کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ من ماء) (سنن ابی داؤد، الصیام، باب مایفطر علیہ، ح: ۲۳۵۶)
ہمارا معمول اس نبوی معمول سے کتنا مختلف ہے۔ ہمارے ہاں افطاری کے وقت انواع و اقسام کے پھل فروٹ کے علاوہ چٹ پٹی اور مصالحے دار چیزوں کی بھی فراوانی ہوتی ہے، جس سے معدے میں گرانی ہو جاتی ہے جو صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ ہمیں بھی ان تکلفات کی بجائے سادگی ہی کو اختیار کرنا چاہیے۔ اسی میں اخروی اجر و ثواب بھی ہے اور دنیوی فائدہ بھی۔
6-قبولیت دعا کا وقت
سارا دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھوک پیاس برداشت کرنے اور اپنی جنسی خواہش پر کنٹرول کرنے کی وجہ سے ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہو جاتا ہے، اس لیے افطاری کے وقت قبولیت دعا کا بھی بہت امکان ہوتا ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’افطاری کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘
(ان للصائم۔۔۔۔ ما ترد) (سنن ابن ماجہ، الصیام، باب فی الصائم لا تردد دعوتہ، ح: ۱۷۵۳)
7-افطاری کے وقت کون سی دعا پڑھی جائے
اس سلسلے میں ایک دعا یہ مشہو رہے: (اللھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت) لیکن یہ مرسل روایت ہے جو محدثین کے نزدیک ضعیف شمار ہوتی ہے۔ ایک دوسری دعا ہے جو عام کیلنڈروں میں لکھی ہوتی ہے :
(اللھم لک صمت وبک آمنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت)
یہ دعا بالکل بے سند اور بے اصل ہے، ایک تیسری دعا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے وقت پڑھتے تھے۔
(ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتِ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللہُ)
’’پیاس دور ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔‘‘
اس کی سند حسن درجے کی ہے۔ (مشکوة للالبانی ۲۶۱/۱) اس لیے بہتر ہے کہ افطاری کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ اگرچہ شیخ البانی نے دوسری مرسل روایت کو بھی شواہد کی بنا پر قابل قبول قرار دیا ہے۔ لیکن بعض دوسرے علماء شیخ البانی کی اس رائے سے متفق نہیں اور وہ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔و اللہ اعلم
8-روزہ کھلوانے کا ثواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی غازی کو تیار کیا تو اس کے لیے بھی اس کے برابر اجر ہے۔
(من فطر۔۔۔۔۔ مثل اجرہ)(شرح السنة، باب ثواب من فطر صائما، ح: ۱۸۱۹ وشعب الایمان، الصیام، فضل فیمن فطر صائما، ح: ۳۹۵۳)
روزہ کھلوانے کا یہ اجر ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق حاصل کر سکتا ہے، اس کے لیے پر تکلف دعوت کی ضرورت نہیں۔
9-روزے دار کے لیے حسب ذیل چیزوں سے اجتناب ضروری ہے
1-جھوٹ سے: جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے جھوٹ بولانا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ عزوجل کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں۔
(من لم۔۔۔واشربہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، ح: ۱۹۰۳)
2-لغو اور رفث سے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ صرف کھانا پینا (چھوڑنے کا) نام نہیں ہے۔ روزہ تو لغو اور رفث سے بچنے کا نام ہے۔ اس لیے اگر تجھ کو کوئی شب و ستم کرے یا تیرے ساتھ جہالت سے پیش آئے تو تُو کہہ دے میں تو بھئی روزے دار ہوں۔‘‘
(لیس الصیام۔۔۔۔ انی صائم) (صحیح ابن خزیمہ ۲۴۲/۳، ح: ۱۹۹۶۔ مط۔ المکتب الاسلامی)
3-لغو: ہر بے فائدہ اور بے ہودہ کام کو کہتے ہیں ، جیسے ریڈیو اور ٹی وی کے لچر اور بے ہودہ پروگراموں کا سننا اور دیکھنا ہے۔ تاش ، شطرنج اور اس قسم کے دیگر کھیل ہیں۔ فحش ناول، افسانے اور ڈرامے ہیں۔ دوست احباب کے ساتھ خوش گپیاں ، چغلیاں ، بے ہودہ مذاق اور دیگر نا شائستہ حرکتیں ہیں۔
4-رفث کا مطلب :جنسی خواہشات پر مبنی باتیں اور حرکتیں ہیں۔ یہ لغو و رفث روزے کی حالت میں بالخصوص ممنوع ہیں۔ اس لیے تمام مذکورہ باتوں اور حرکتوں سے اجتناب کیا جائے۔
اسی طرح کوئی لڑنے جھگڑنے کی کوشش کرے ، گالی گلوچ کر کے اشتعال دلائے، تو روزے دار اس جہالت کے مقابلے میں صبر و تحمل اور در گزر سے کام لے اور دوسرے فریق کو بھی اپنے عمل سے یہ وعظ و نصیحت کرے کہ روزے کی حالت میں بالخصوص جدال و قتال سے بچنا اور قوت برداشت سے کام لینا چاہیے۔
جھوٹ اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب کا مطلب ہے کہ روزے میں نہ جھوٹی بات کرے نہ دجل و فریب پر مبنی کوئی حرکت، جیسے دکان میں بیٹھ کر گاہکوں سے جھوٹ بولے یا ان کو دھوکہ اور فریب دینے کی کوشش کرے، جیسا کہ بد قسمتی سے بے شمار دکاندار ان حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ حرکتیں ہر وقت ہی ممنوع ہیں۔ لیکن روزہ رکھ کر ان حرکتوں کا ارتکاب تو بہت بڑی جسارت اور غفلت شعاری کا عجیب مظاہرہ ہے۔
ایسے ہی لوگوں کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’کتنے ہی روزے دار ہیں جن کو سوائے پیاس کے، روزہ رکھنے سے کچھ نہیں ملتا اور کتنے ہی شب بیدار ہیں جن کو بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
(کم من صائم۔۔۔۔۔۔۔۔الا السھر) (مسند احمد: ۴۴۱/۲ وسنن الدارمی، الرقائق، باب فی المحافظة علی الصوم، ح: ۲۷۱۶ وقال الالبانی اسنادہ جید، مشکوة للالبانی: ۶۲۶/۱)
Posting Permissions
- You may not post new threads
- You may not post replies
- You may not post attachments
- You may not edit your posts
-
Forum Rules